Thursday, 31 July 2014

Proofs for reciting and touching quran during junub

NOTE : THIS ARTICLE IS POSTED IN RESPONSE OR AS AN ATTACHMENT TO A FORMER ARTICLE I POSTED ON THIS BLOG THAT PROHIBITED READING OR TOUCHING THE QUR`AN (MUSHAF) DURING THE CONDITION OF JUNUB (SEXUAL DEFILEMENT). THIS ARTICLE OPPOSES THAT IN THE LIGHT OF EVIDENCES AND BOTH THE ARTICLES HAVE THEIR OWN EVIDENCES. SO THE REASON I AM POSTING THIS OPPOSING ARTICLE TO MY FORMER COMPILATION,  IS TO ALLOW THE READERS TO ANALYSE THE OPINION CLOSEST TO THE SUNNAH AND SAFETY AND THEREAFTER CHOOSE WHATSOEVER THEY FIND AS SUCH. 

THE ORIGINAL ARTICLE (a must read to understand the difference of opinion on this topic), TO WHICH THIS urdu article IS A RESPONSE OF,  IS HERE : http://the-finalrevelation.blogspot.com/2012/09/touching-or-reciting-quran-during-junub.html

This is taken from brother kashif. Unfortunately i don't have the time to translate this passage. If someone does undertake this rewarding task (of translating into english) please share it with us so we can post it for our english speaking readers 

حالت جنابت میں قرآت قرآن کا مسئلہ اس بارے میں علما کے تین موقف ہیں :

۱۔ مطلقا جائز ہے یہ موقف حضرت ابن عباس، بعض تابعین کرام، امام بخاری، ابن حزم، ابن منذر وغیرھم کا ہے۔
۲۔ مطلقا ممنوع ہے یہ موقف بھی بعض علما کا ہے۔
۳۔ بعض آیات جیسے ایک یہ دو پڑھ سکتے ہیں۔

ان میں سے اول موقف ہی راجح ہے، کیونکہ ممانیت کی کوئی واضح روایت موجود نہیں ، جو واضح ہیں وہ ضعیف ہیں، اور جو صحیح ہیں وہ غیر واضح ہیں۔

اس کے بر عکس آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مرفوعا، اور صحابہ اور تابعین سے اس کا جواز ملتا ہے۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ حالت جنابت میں قرآت کرتے تھے :

عن عكرمة، عن ابن عباس، أنه كان يقرأ ورده وهو جنب

( الأوسط في السنن والإجماع والاختلاف 2/98 وسندہ صحیح) 
حافظ ابن حجر العسقلانی نے اس اثر کی سند کو صحیح قرار دیا ہے (تغلیق التعلیق     2/172)

نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے حالت جنابت میں قرآت کے دلائل 

پہلی دلیل :

عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم كَانَ إِذَا أَوَى إِلَى فِرَاشِهِ كُلَّ لَيْلَةٍ جَمَعَ كَفَّيْهِ ثُمَّ نَفَثَ فِيهِمَا فَقَرَأَ فِيهِمَا {قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ} وَ{قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ} وَ{قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ} ثُمَّ يَمْسَحُ بِهِمَا مَا اسْتَطَاعَ مِنْ جَسَدِهِ يَبْدَأُ بِهِمَا عَلَى رَأْسِهِ وَوَجْهِهِ وَمَا أَقْبَلَ مِنْ جَسَدِهِ يَفْعَلُ ذَلِكَ ثَلاَثَ مَرَّاتٍ.

حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں رسول اللہ ﷺ ہر رات کو جب بھی بستر پر آرام فرماتے (تو اس سے پہلے) اپنے دونوں ہتھیلیوں کو جمع کر کے سورۃ اخلاص، سورۃ الفلق، سورۃ الناس پڑھتے اور ان میں پھونک لیتے اور جہاں تک ممکن ہوتا اپنے جسم پر مل لیتے۔۔۔

(صحیح بخاری 5017)

معلوم ہوا حدیث میں وارد لفظ ’’كل ليلة‘‘ سے مراد یہ عمل آپ ہر رات کو سونے سے پہلے کرتے۔ اور یہ بات بھی معلوم ہے کے ہرات میں سے کئی اوقات آپ حالت جنابت میں ہی سوجاتے جس کی دلیل درج ذیل ہے :

عن أبي سلمة، قال: سألت عائشة " أكان النبي صلى الله عليه وسلم يرقد وهو جنب؟ قالت: نعم ويتوضأ

حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا سے پوچھا گیا کیا آپ ﷺ جب حالت جنابت میں ہوتے تو سوجاتے ؟ آپ رضی اللہ عنھا نے جواب دیا ہاں لیکن وہ سونے سے پہلے وضو کرتے۔

(صحیح بخاری 286)

معلوم ہوا رسول اللہ ﷺ ہر رات کو قرآن پڑتھے تھے اور ان میں سے بعض اوقات حالت جنابت میں بھی ہوتے تھے۔

دوسری دلیل :

كان النبي صلى الله عليه وسلم يذكر الله على كل أحيانه (صحیح مسلم 117)
نبی ﷺ اللہ تعالی کا ذکر ہر وقت کرتے تے۔

امام بخاری نے بھی اس حدیث سے حالت جنابت میں قرآت قرآن پر استدلال کیا ہے۔

دیکھیں (صحیح بخاری باب: تقضي الحائض المناسك كلها إلا الطواف بالبيت)۔

ان ادلہ کا مناقشہ جس سے اس کی ممانیت اور کراہیت پر استدلال کیا جاتا ہے :
لا يحجزه عن القرآن شيء، إلا الجنابة
نبی ﷺ کو قرات قرآن میں کوئی چیز مانع نہیں ہوتی سوائے جنابت کے۔ 
(سنن ابن ماجہ وغیرہ)

اولا : تو اس حدیث سے ممانیت ثابت نہیں ہوتی کیونکہ مجرد نبی ﷺ کا کسی عمل کو ترک کردینا اس کی حرمت پر دلالت نہیں کرتا جسیے کہ اصول میں یہ بات مقرر اور مسلم ہے، جن لوگوں نے بھی اس حدیث سے استدلال کیا ہے اس کے یعی معنی بیان کئے ہیں مثلا :

۱۔ ابن خزیمہ نے اپنی صحیح میں واضاحت کی ہے کہ اس سے مراد کراہت ہے حرمت نہیں، اسی طرح حافظ ابن حزم اور ابن مندہ اور امیر صنعانی نے بھی یہی مفہوم بیان کیا ہے جو اصول کے مطابق ہے۔

حافظ عمران ایوب لاھوری حفظہ اللہ اس حدیث کے ضمن میں فرماتے ہیں :
’’بالفرض اس حدیث کو صحیح یا حسن بھی تسلیم کرلیا جائے تب بھی اس سے حرمت ثابت نہیں ہوتی کیونکہ اس میں صرف آپ ﷺ کے فعل کا بیان ہے اور مجرد فعل سے حرمت ثابت نہیں ہوتی جیسا کہ اصول سے یہ بات ثابت ہے‘‘ (فقہ الحدیث جلد اول ص
۲۴۰)

حافظ ابن حزم رحمہ اللہ اسی اصول کو مد نظر رکھتے ہوئے اس حدیث کے تحت مانعین قرآت کا رد کرتے ہیں :
وهذا لا حجة لهم فيه؛ لأنه ليس فيه نهي عن أن يقرأ الجنب القرآن، وإنما هو فعل منه - عليه السلام - لا يلزم، ولا بين - عليه السلام - أنه إنما يمتنع من قراءة القرآن من أجل الجنابة.
وقد يتفق له - عليه السلام - ترك القراءة في تلك الحال ليس من أجل الجنابة، وهو - عليه السلام - لم يصم قط شهرا كاملا غير رمضان، ولم يزد قط في قيامه على ثلاث عشرة ركعة، ولا أكل قط على خوان، ولا أكل متكئا. أفيحرم أن يصام شهر كامل غير رمضان أو أن يتهجد المرء بأكثر من ثلاث عشرة ركعة، أو أن يأكل على خوان، أو أن يأكل متكئا؟ هذا لا يقولونه، ومثل هذا كثير جدا.
اس حدیث میں ان کے لیے کوئی حجت نہیں، کیونکہ اس میں کوئی ممانیت نہیں حالت جنابت میں قرآت قرآن کے لیے، کیونکہ آپ ﷺ کا فعل ہے اور اس سے (اس کی ممانیت) لازم نہیں اتی، اور نہ ہی آپ ﷺ نے اس بات کی کوئی نشاندہی کی کہ اپ کا قرآت قرآن نہ کرنا جنابت کی وجہ سے تھا۔ اور پس یہ بات زیادہ مناسب ہے کہ آپ ﷺ ترک قرآت اس حال میں جنابت کی وجہ سے نہیں تھا۔ اور نبی ﷺ نے پورے مہینہ سوائے رمضان کے مسلسل روزے نہیں رکھے اور اسی طرح آپ ﷺ نے قیام الیل میں تیرا رکعات سے زیادہ نہیں پڑھیں، اسی طرح نہ آپ ﷺ نے دسترخوان پر کھانا کھایا اور نہ کبھی ٹیک لگا کر کھانا کھایا۔ تو کیا یہ اس کو بھی حرام قرار دیں گے جو رمضان کے علاوہ پورے مہینہ روزے رکھے یا کوئی تہجد میں تیرا رکعات سے زیادہ پڑھے، یا کوئی دسترخوان پر کھنا کھائے یا کوئی ٹیک لگا کر کھانا کھائے؟ لیکن ایسا وہ نہیں کہتے، اور اس طرح کا کئی مثالیں موجود ہیں ( جس کو آپ ﷺ نے محض ترک کیا ہو اور اس کو حرام نہیں کہا گیا)
المحلی ج
۱ ص۹۵))

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اسی قاعدہ کو بیان کرتے ہوئے ایک جگہ لکھتے ہیں :
فلم يأكل النبي - صلى الله عليه وسلم - من كل نوع من أنواع الطعام القوت والفاكهة، ولا لبس من كل نوع من أنواع اللباس. ثم إنّ من كان من المسلمين بأرض أخرى كالشام ومصر واليمن وخراسان وغير ذلك، عندهم أطعمة وثياب مجلوبة عندهم أو مجلوبة من مكان آخر، فليس لهم أن يظنوا ترك الانتفاع بذلك الطعام واللباس سنّة، لكون النبي - صلى الله عليه وسلم - لم يأكل مثله ولم يلبس مثله، إذ عدم الفعل إنما هو عدم دليل واحد من الأدلة الشرعية. وهو أضعف من القول، باتفاق العلماء.
نبی ﷺ نے ہر طرح کے کھانے اور پھل نہیں کھائے، اور نہ ہی ہر طرح کا لباس پہنا۔ پھر اس کے بعد جہاں بھی مسلمان ہیں زمین کے دوسرے حصوں پر جیسے شام، مصر، یمن، خراسان وغیرہ ممالک میں ان میں سے ہر ایک کے کھانے اور لباس منفرد ہیں ایک دوسرے سے، ان میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جو یہ گمان کرے کہ یہ کھانے اور لباس ترک کردینا سنت کا فائدہ دے گی کیونکہ نبی ﷺ نے نہ تو اس طرح کے کھانے کھائے اور نہ ہی اس طرح کے لباس پہنے کیونکہ کسی چیز کو نہیں کرنا عدم دلیل ہے، اور وہ ادلہ شرعیہ میں سے ایک دلیل ہے۔ تو یہ قول باتفاق العلماء سب سے زیادہ کمزور ہے۔

(الفتاوی الکبری ج
۲۱ ص۳۱۳)

اسی طرح مجرد ترک کردینا کا فیصلہ دیگر قرآئین کی بنا پر کیا جائے گا جس کی اپنی تفصیل ہے۔ جب کہ یہاں اس کے برعکس جواز بھی ثابت ہے۔

دوم :

یہ حدیث ضعیف ہے، جمہور نے اسے ضعیف قرار دیا ہے اور اس پر جرح مفسر بھی موجود ہے :
امام ترمذی متساہل نے اس حدیث کو ‘‘حسن صحیح’’ قرار دیا جس پر امام نووی رحمہ اللہ تعقب کرتے ہوئے کہتے ہیں :
قال الترمذي: " هو حسن صحيح " وخالفه الأكثرون، فضعفوه. (الخلاصۃ الاحکام ج
۱ ص۲۰۷)

اور ترمذی نے اسے حسن صحیح کہنے میں جمہور کی مخالفت کی ہے، جمہور نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔

۱۔ عمرہ بن مرہ جو اس حدیث کا بنیادی راوی ہے اس نو خود صراحت کردی ہے کہ میں نے یہ عبداللہ بن سلمہ سے بعد از تغیر سنا ہے
عمرو بن مرة قال كان عبد الله بن سلمة قد كبر فكان يحدثنا فتعرف وتنكر

(العلل ومعرفۃ الرجال ج
۲ ص۱۴۷،معرفۃ السنن والآثار ج اص۳۲۲ وسندھما صحیح)
جس کے بعد کوئی شبہ نہیں رہ جاتا اس روایت کے ضعیف ہونے میں۔

امام العجلی رحمہ اللہ عمرہ بن مرہ کے ترجمہ میں فرماتے ہیں :
سمع منه بعدما كبر یعنی
عمرہ بن مرہ نے عبداللہ بن سلمہ سے بعد از تغیر سنا ہے۔
الثقات للعجلی ص
۳۷۰))

شیخ زبیر رحمہ اللہ نے عبداللہ بن سلمہ کا ترجمہ تو دیکھا (فتاویہ علمیہ جلد
۱ ص۲۰۰) لیکن شاید عمرہ بن مرہ کے ترجمہ پر آپ کی نظر نہیں گئی، امام العجلی نے وہاں صراحت کردی ہے کہ اس نے بعد از تغیر سنا ہے لہذا یہ روایت ضعیف ہے۔ اور بعض کی اس جرح مفسر کے بعد مبہم تصحیح وتحسین کوئی فائدہ نہیں دیتی۔ 

حافظ ابن مندہ لکھتے ہیں عمرو بن مرۃ کی بات نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں :
وقد تكلم فيه عمرو بن مرة قال: سمعت عبد الله بن سلمة وإنا لنعرف وننكر فإذا كان هو الناقل بخبره فجرحه بطل الاحتجاج به
جب ناقل خود خبر دے اپنی روایت پر جرح کی تو اس احتجاج کرنا بطل ہوجاتا ہے۔ 
الاوسط فی السنن والاجماع ج
۲ ص۱۰۰))

۲۔ امام شعبہ جو اس حدیث کے راوی ہیں انہوں نے اس کا انکار کیا ہے (المنققی ابن الجارود ۹۴ وسندہ صحیح)
۴۔ امام شافعی نے بھی اسے ضعیف قرار دیا ہے، امام بیہقی نے اسے امام شافعی کی کتاب کے حوالہ سے نقل کیا ہے (معرفۃ السنن والآثار ج اص۳۲۲)۔
۳۔ ابن منذر وقال وحديث علي لا يثبت إسناده (الاوسط لابن منذر ج۲ ص۹۷)
۴۔ حافظ البزار رحمہ اللہ (مسند البزار ج۲ ص۲۸۶)
۵۔ امام بیھقی رحمہ اللہ نے بھی اس پر کلام کیا ہے (معرفۃ السنن والآثار ج اص۳۲۲)
۶۔ امام نووی رحمہ اللہ (المجموع ج۲ ص۱۵۹، خلاصۃ الاحکام ج۱ ص۲۰۷)
۷۔ علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ (اروا الغلیل ۴۸۵)
۸۔ محدث ابو اسحاق الحیونی حفظہ اللہ (غوث المکدود ج۱ ص۹۴)
۹۔ محقق دکتور بشار عواد معروف رحمہ اللہ (سنن الترمذی بتحقیق بشار عواد ج۱ ص۱۹۱)
۱۰۔ حسین سلیم اسد وقال اسنادہ ضعیف (مسند ابو یعلی ج۱ ص۲۸۸)
۱۱۔ شیخ مصطفی الاعظمی نے بھی ضعیف قرار دیا ہے (صحیح ابن خزیمہ ج۱ ص۱۰۴)

اسی طرح اس روایت میں اور بھی دیگر علتیں موجود ہیں اس روایت میں عبداللہ بن سلمہ کا تفرد ہے جس پر امام ابن مندہ نے اشارہ کیا ہے اسی طرح اس کے تفرد پر امام بخاری نے بھی صراحت کی ہے اس کے ترجمہ میں ، ساتھ میں متن میں بھی بعض نکارت ہے جب کہ صحیح بخاری اور مسلم کی روایت سے اس کے برعکس پتا چلتا ہے۔

No comments:

To contact us, Please do so from the "Contact us" tab on the top of this page