Sunday 12 October 2014

علماء کرام سے علم کے حصول کی ضروت اور اہمیت!






































علماء کرام سے علم کے حصول کی ضروت اور اہمیت!


عرض مترجم​:

 الحمد لله رب العالمين والصلاة والسلام على سيد الأنبياء والمرسلين , أما بعد !.
زیر نظرآرٹیکل  " قرآن و سنت لیکن بذریعہ علماء " ،  ایک انگلش آرٹیکل کا اردو ترجمہ ہے جو آپ یہاں پڑھ سکتے ہیں-


اس آرٹیکل کا ترجمہ کرتے وقت میں نے حتی الوسع  کوشش کی ہے کہ  اسکے  عبارت اور مواد کا  با لکل اسی طرح ترجمہ کروں جس طرح اس آرٹیکل کے حقیقی مصنف نے چاہا ہے  اور اسکے متن میں فرق نہ آئے- جہاں تک قرانی آیات اور احادیث کے ترجمے کا تعلق ہے تو وہ میں نے  علماء کرام کے تراجم سے نقل  کئے  ہیں، لیکن جہاں تک آثار  اور علماء کے فتووں کا تعلق ہے ، تو اسکے لئے مجھے کوئی ایسی شائع شدہ کتاب نہیں ملی جس میں انکے ترجمے موجود ہوں اسی لئے  میں نے خود، جہاں تک ممکن ہوا اور جتنی اللہ نے توفیق دی اسکا ترجمہ کیا  اور پوری کوشش کی کہ انکے ساتھ انصاف کر سکوں –


جسطرح میں نے عرض کیا  کہ اس اردو آرٹیکل کا ترجمہ، اسکے انگلش آرٹیکل  کے مواد اور متن کی مطابق کیا گیا ہے جو دئے گئے لنک پر مورخہ ٢٠١٤/٠٨/ ١٠   تک موجود تھا- میں یہ بھی واضح کرتا چلوں کہ اگر اس آرٹیکل کا حقیقی مصنف اسکے انگلش آرٹیکل میں کچھ رد ؤ بدل، اضافہ یا کمی کرے  تو اسکا اس  ترجمے کے ساتھ کوئی تعلق نہیں  ہو گا- پس اگر آپ کو انگلش آرٹیکل میں کچھ ایسے روایات یا آثار یا علماء کے فتوے   ملے جو اردو آرٹیکل میں نہیں ہوں  تو اسکی وجہ یہی ہوگی جو اوپر بیان کر دی گئی ہے-


آخر میں اتنا کہنا چاہونگا کہ ہر انسان سے غلطی ہوتی ہے اور یقیناّ  مجھ سے بھی اس آرٹیکل کے ترجمے میں ہوئی ہوگی- اگر آپ کو کوئی غلطی نظر آئے تو برائے مہربانی  مجھے میرے نیچے دئے گئے  فیس بک آئی ڈی  پر مطلع کر دیں-

Facebook ID: Syed Mashwanee
مترجم: سید فرقان مشوانی –
مورخہ: ٢٠١٤/١٠/١٢ –
مجھے اپنے دعاؤں میں یاد رکھئے گا-  

*******
*******
 DOWNLOAD THIS ARTICLE IN PDF
اس مضمون کو اردو میں ڈاؤن لوڈ کرے)pdf صحیح اور بہتر فہم کے لئے ضرور پڑہیں

https://www.mediafire.com/?g5r0wn52e6oydb1



قرآن و سنّت لیکن بذریعہ علماء

علماء اکرام سے علم کے حصول کی ضروت اور اہمیت

یہ ایک بہت ہی اہم  مگر طویل موضوع ہےاور میں اس موضوع کے ساتھ انصاف  نہیں کرسکونگا۔  لیکن میں اپنی طرف سےاس موضوع کو مختصر رکھتے  ہوئے اسکے  نچوڑ   
کوآپ تک پہنچانے کی کوشش کرونگا ۔

فہرصت :-


1)- گمراہ علماء دجال سے بھی زیادہ  خطرناک ہیں۔
2) - نقصان، جو جاہل  اورعام لوگ اسلام اور مسلمانوں کو پہنچاتے ہیں۔
3)- علم کی برتری، فضائل اور ضرورت  (مختصراً بیان کی گئ ہیں)۔
4)-  وہ  بڑا مسلہ جو قرانی آیات ، احادیث اور اسلامی احکامات کی   اپنی رائے اور منطق   کے مطابق تشریح کرنے سے پیدا ہوتا ہے۔
4.1) - منظر نامے کا پہلا تصور: دنیوی مثالیں-
4.2) - منظر نامے کا دوسرا تصور: مذہبی مثالیں-
.-پہلی مثال-
-دوسری مثال-
-تیسری مثال-
-چوتھی مثال-
-پانچویں مثال-
-چھٹویں مثال-
-ساتویں مثال-
-آٹھویں مثال-
-نویں مثال-
4.3) - بطور مثال حضرت عمر ررضی الله عنہ کے دور کےایک شخض کا واقعہ جسنےا پنے سمجھ و فہم سے  دینی معاملات و احکامات کی تشریح کرنے کی کوشش کی-
4.4) - اس انتشاری ذہنیت اور بیماری کا حل۔
5)  -مستند ذرائع  اور حقیقی علماء سے (علم) لینا   لازم ہے۔
6) - حجت،اہمیت و فضائل علماء  (مختصراً) ۔
6.1) - علی بن ابی طالب رضی الله عنہ کے قول کی روشنی میں علماء کی اہمیت اور ذمہ داری -
6.2) - علماء کا خود یہ کہنا کہ "میں نہیں جانتا"۔
6.3) - علما کرام کی فضیلت اور عام آدمی (جاہل) پر برتری ۔
6.4) - باطل کی تردید اور حق کے قیام میں علماء کرام کا کردار۔
6.5) - علماء کرام کے اختیارات۔
6.6) - علما کرام میں خدا کا خوف (ہزاوں مثالوں میں سے صرف چند ذیل میں بیان کی گئی ہیں) ۔
7) - مذہب  ؤ  مذہبی احکامات کی اپنے  منطق و فہم کے مطابق تشریح کے رد میں سلف صالحین کے فتوے۔
7.1 ) - کچھ ایسی مثالیں جب علماء نے اپنے علماء سے فتوے کے لئے رجوع کیا اور نص کے خلاف اپنے منطق کو استعمال کرنے کا رد کیا-
8)  - خلاصہ/ اختتام-
9) - علماء کرام کا مزاق اڑانا اور انکی توہین کرنا ۔
10) - علماء سے برتاؤ  کے حوالے سےچند نصیحتیں  ۔
10.1) - اپنے شیخ (جس سے آپ علم حاصل کرتے ہو) سے حسن سلوک ۔




*****************


تمام تعریفیں اللہ سبحان تعالی کیلئے  ہے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ وسلم  پر لاکھوں درود ؤ سلام-

1) - گمراہ علماء دجال سے بھی زیادہ  خطرناک ہیں۔

 ، قَالَ: كُنْتُ
أَمْشِي مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: "لَغَيْرُ الدَّجَّالِ أَخْوَفُنِي عَلَى أُمَّتِي " قَالَهَا ثَلَاثًا. قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ، مَا هَذَا الَّذِي غَيْرُ الدَّجَّالِ أَخْوَفُكَ عَلَى أُمَّتِكَ؟ قَالَ: "أَئِمَّةً مُضِلِّينَ "
"ابوذر رضی اللہ عنہ نے فرمایا :
 میں ایک دن اللہ کے رسول ﷺ کے ساتھ  تھا  اور میں نے آپ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا :
 "مجھے میری امت کے  لئے دجال سے بھی زیادہ  خدشہ (ایک اور چیز  کا) ہے"
آپ نے اس بات کو تین مرتبہ دہرایا ۔ میں نے کہا ! اے اللہ کے رسول ﷺ ، وہ کیا چیز ہے جس کا آپ دجال کے علاوہ اپنی امت پر خوف کر تے ہیں ؟  تو فرمایا "گمراہ ائمہ"
] مسند امام احمد 20335، 21334 اور 21335] ۔ شیخ شعيب ارناوط اسے صحیح لغیرہ کہا (مستند شواہد کی وجہ سے) اپنےتحقیق مسند (1999 ء 35:21, 296-97  ) میں [-

کیا  آپنے  کبھی سوچا ہے  کہ وہ رسول ﷺ جو دن رات اپنی امّت  کو دجال کے فتنے سے خبردار کرتا رہے ، وہ گمراہ علماء کے فتنے کے بارے میں زیادہ فکر مند کیوں تھے؟

تووضاحت کے لیے ایک مثال ملاحظہ ہوں:
تصور کریں کہ آپ اپنے بیٹے کو پہلی منزل سے  نہ کودنے  کو مسلسل خبردار  کر رہیں ہیں ، لیکن ایک دن آپ اسکو  بتاتے ہو کہ بیٹا مجھے پہلی منزل سے زیادہ  تمہارے دوسرے منزل سے کودنے کا ڈر ہے- اصل میں اس بات اس کا مطلب یہ ہوگا کہ دوسری منزل سے کودنے کا خطرہ پہلی منزل سے بھی زیادہ ہے ۔ اس طرح گمراہ علماء دجال کے برابر خطرناک یا اس سے بھی بڑھکر ہیں۔

ابن مسعود رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا:
"كيف أنتم إذا لبستكم فتنة يهرم فيها الكبير, ويربو فيها الصغير, ويتخذها الناس سنة, إذا ترك منها شيء" قيل: تركت السنة؟ قالوا: ومتى ذاك؟ قال: "إذا ذهبت علماؤكم, وكثرت قُراؤكم, وقَلَّت فقهاؤكم, وكَثُرت أمراؤكم, وقلَّتْ أمناؤكم, والتُمِسَتِ الدنيا بعمل الآخرة, وتُفُقهَ لغير الدين

"   کیا حال ہوگا تمہارا جب  تم کو فتنہ (آفت یعنی بدعت) اسطرح گھیر لے گی کہ  ایک جوان  اسکے ساتھ (یعنی اس کو کرتے کرتے) بوڑھا ہوجائےگا،  اور بچوں کی تربیت اسی پر ہوگی، اور لوگ اس بطور سنّت لیں گے- توجب کبھی بھی اس  (بدعت) کا کچھ حصہ لوگ چھوڑ دینگے، تو کہا جائے گا: " کیا تم نے سنّت کو چھوڑ دیا؟  انہوں (صحابہ) نے پوچھا: " ایسا کب ہوگا؟"     آپﷺ نے فرمایا:  جب تمہارے علماء فوت ہو گئے ہونگے ،  قرآت کرنے والے کثرت میں ہونگے ، تمہارے فقہاء چند ایک ہونگے، تمہارے سردار کثرت میں ہونگے،  ایسے لوگ کم ہونگے جن پر اعتبار کیا جا سکے،  آخرت کے کام صرف لوگ دنیوی زندگی کے حصول کے لئے کرینگے، اور حصول علم کی وجہ دین کی بجاۓ کچھ اور ہوگا-"
[ دارمی (٦٤/١) نے اسے دو اسناد کے ساتھ روایت کیا ہے ، پہلی سند صحیح جبکہ دوسری حسن ہے- اسے حاکم ( ٥١٤/4) اور دوسروں نی بھی روایت کیا ہے]

اس حدیث کے بارے میں شیخ البانی  رحم الله  کہتے ہیں:

قلت: وهذا الحديث من أعلام نبوته صلى الله عليه وسلم وصدق رسالته, فإن كلفقرةمن فقراته, قد تحقق في العصر الحاضر, ومن ذلك كثرة البدع وافتتانالناس بهاحتى اتخذوها سنة, وجعلوها ديناً
?
يُتَّبع, فإذا أعرض عنها أهل السنة حقيقة, إلى السنة الثابتة عنه صلى الله عليه وسلم قيل: تُركت السنة

" میں کہتا ہوں :  یہ حدیث رسول الله کی نبوت و رسالت کی ایک نشانی ہے، کیوں کہ اسکا ایک ایک جز موجودہ دور میں وقوع پذیر ہو چکا ہے- اہل بدعت سے بدعات کے پھیلاؤ جاری ہیں ، اور لوگوں کے لئے یہ ایک امتحان  ہے جس سے انکوں آزمایا جا رہا ہے- ان بدعات کو لوگوں نے بطور سنّت اپنا لیا اور دین کا حصہ بنا دیا ہے- پس جب اہل سنہ ان بدعات سے اس  سنّت جو رسول الله سے ثابت ہے ،  کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں، تو کہا  جائے گا: کیا سنّت کو رد کر دیا گیا ہے؟
[ قیام الرمضان :ص5-4، شیخ البانی رحم الله ]

رسول الله ﷺ کے ہر قول میں لازماً  کچھ سیکھنے  کےلئے اور غور و فکر کرنے  کے لئے  ہو گا- اسکی مزید وضاحت اگے اس  مکالے میں ہوگی-

2)  - نقصان، جو جاہل  اورعام لوگ اسلام اور مسلمانوں کو پہنچاتے ہیں۔
اس حدیث سے اور ایک فائدہ، حصول علم کی اہمیت معلوم ہوتا ہے، کہ کوئی شخص بُرائی کے چنگل سے نہیں بچ سکتا جب تک وہ اچھے بُرے کے درمیان فرق نہ جان لے  ۔ اگر آپ نہیں جانتے تاریکی کیا ہے تو آپکو ہر طرف روشنی ہی روشنی لگے گی – یہ تا ہم  آپکوایک بےقوف یا دوسرے الفظ میں جاہل بنا دیگا۔ اس طرح ہم (مسلمانوں) کو علم حاصل کرنا چاہیے اور عمررضی اللہ عنہ نے اس بارے میں پہلے سے ہم کو خبردار کردیا۔

أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْأَصْبَهَانِيُّ، ثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ حَفْصٍ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ شَبِيبٍ، عَنْ غَرْقَدَةَ، عَنِ الْمُسْتَظِلِّ بْنِ الْحُصَيْنِ، قَالَ: سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ:" قَدْ عَلِمْتُ وَرَبِّ الْكَعْبَةِ مَتَى تَهْلِكُ الْعَرَبُ: إِذَا وَلِي أَمْرَهُمْ مَنْ لَمْ يَصْحَبِ الرَّسُولَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَمْ يُعَالِجْ أَمْرَ الْجَاهِلِيَّةِ۔

المُصتضل بن حُسین سے روائیت ہے میں نے عمر رضی اللہ عنہ  کو یہ کہتے ہوئے سنا :

 میں جانتا  ہوں اور کعبہ کی رب کی قسم، کہ کب عرب (مطلب کے اسلام) ناش ہو جائے گا  : جب صحابہ کرام اُنکےامورکے والی نہیں ہونگے وہ لوگ جنہیں علم نہیں کہ جہالت کیا چیز ہے "۔
] مصنف ابن أبي شيبا 6/410،طبقات ابن سعد6/129، مستدرك الحاكم، 4/475، الشعب-الإيمان 6/69، أبو نعيم ھلیه7/243، الحارس بن مسكين بدايہو نہایا[11/650


قال ابن تيمية قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ إنَّمَا تُنْقَضُ عُرَى الْإِسْلَامِ عُرْوَةً عُرْوَةً إذَا نَشَأَ فِي الْإِسْلَامِ مَنْ لَمْ يَعْرِفْ الْجَاهِلِيَّةَ
ابن  تیمیہ سے روایت ہے : عمر رضی اللہ عنہ نے کہا : بے شک اسلام کی منیادیں ایک کے بعد ایک تباہ و برباد ہو جائےگیں۔ اگر اس میں ایسے لوگ پیدا ہو جائےجو نا واقف ہوں گے کہ جہالت کیا ہے ۔
] مجمو'الالفتاوى 10/301، القیم اپنی فوائد  میں بھی اسے لائے  ہیں [

زبیر بن عدی  رحم الله  سے روایت ہے:
ہمانس بن ملک رضی الله عنہ کے پاس حاضر ہوئے اور  حجاج کے مظالم کی شکایت کی- پس انس رضی الله عنہ نے فرمایا:
" ہر آنے والا سال پچھلے سال سے بعد تر ہوگا یہاں تک تم آپنے رب سے جا ملو – یہ میں نے تمہارے رسول
صلى الله عليه وسلم سے سنا ہے-

ابن مسعود رضی الله عنہ اسکی تشریح کچھ کرتے ہیں :
"   قیامت کے دن تک ہر آنے والا دن گزرنے والے دن سے بد تر ہوگا – اس سے میری مراد  دولت میں اضافہ یا  بے کر معاملات نہیں ہیں- بلکہ میرا مطلب علم کی کمی ہے- جب علماء فوت ہو جاینگے اور لوگ  برابر ہوجاینگے ، وہ نا برائی سے روکینگے  اور نہ نیکی کی طرف بلائینگے  اور یہی انکو تباہی کی طرف لے جاییگی –
[ سنن دارمی (١٩٤)؛ یعقوب بن سفیان  نے المعرفه  میں اسے روایت  کیا ہے ؛  نسائی (٣٩٣/3)، الخطیب اسے  فقیه ولمتفقیہ (٤٥٦/١) میںلایے ہیں؛ دیکھئے ؛ فتح الباری (٢٦/١٣)]

عمر بن الخطاب نے زیاد رضی اللہ عنہ سے کہا :
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُيَيْنَةَ، أَنبَأَنَا عَلِيٌّ هُوَ ابْنُ مُسْهِرٍ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ زِيَادِ بْنِ حُدَيْرٍ، قَالَ: قَالَ لِي عُمَرُ: «هَلْ تَعْرِفُ مَا يَهْدِمُ الْإِسْلَامَ؟» قَالَ: قُلْتُ: لَا، قَالَ: «يَهْدِمُهُ زَلَّةُ الْعَالِمِ، وَجِدَالُ الْمُنَافِقِ بِالْكِتَابِ وَحُكْمُ الْأَئِمَّةِ الْمُضِلِّينَ»
کیا آپ جانتے ہے اسلام کن چیزوں سے تباہ ہوگا؟  میں (زیاد) نے کہا  نہیں-  انہوں (عمر) نے کہا:  اسلام تباہ ہوگا ،علماء کے غلطیوں سے ،  الله کی کتاب کے بارے میں منافقین کے بحث و دلائل سے، اور گمراہ ائمہ کے رائے سے ۔
] مشكوةألمصابیح89/1حدیث:269، محض الثواب 2/717، الدارمی1/295، مسند الفاروق 2/536، تلبيس الجاهمييا [4/191

الفضیل بن عیاض ؒ  نے فرمایا :
کیا ہو گا جب آپ پر ایسا زمانہ  آئے کہ جب لوگ  حق اور باطل ، مومن اور کافر، امین اور غدار ، جاہل اور عالم  اور نہ ہی صیح اور غلط میں تمیز  کر سکینگے؟
] ابنبطاحالإبانة الکبرہ 1:188[

اس روایت کے بعد ابنبطاح نے کہا :
بہ شک ہم اللہ کی طرف لوٹاۓ جائینگے ! آج  ہم اس  وقت میں پہنچ چکے ہیں، جو ہم نے اسکے بارے میں سنا اور جانا ہے، اسکا بیشتر  وقوع پذیر ہو چکا ہے-۔ ایک فرد واحد جسے الله  نے سمجھ بوجھ عطا کی ہے، اور اگر جو اسلامی احکامات پر غور و فکر کرتا ہو  اور جو صحیح راستے پر مستحکم ہو- تو اس پر یہ بات بلکل واضخ  ہو جاییگی کے اکثر لوگوں نے صراط مستقیم اور  محکم دلائل سے منه  موڑ لیا ہے- اکثر لوگوں نے ان چیزوں کو پسند کرنا شروع کر دیا ہے جن سے وہ کبھی نفرت کرتے تھے،  ان امور کو جائز قرار  دے دیا  جنہیں وہ کبھی حرام کہتے تھے، اور ام امور کو اپنانا شروع کر دیا جنہیں وہ کبھی رد کرتے تھے۔ اللہ تم پر رحم کرے- یہ مسلمانوں کا صیح منشاء نہیں ہے اور نہ اُن لوگوں کا رویہ  ہے جو دین جو دین کے سمجھ رکھتے ہیں-
طلق ابن حبيب :
علم اور اہل علم کے لئے  ان لوگوں سے زیادہ کوئی خطرناک نہیں جو ان کہ گروہ میں تو شامل ہو جاتے ہیں پر ان سے نہیں ہوتے- یہ جاہل ہوتے ہیں لیکن آپنے آپ کو اہل علم میں سے سمجھتے ہیں- یہ لوگ صرف خرابی کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اصلاح کر رہے ہیں-
] ابن ابی الدنیا، التوبہ مضمون 62 [

شیخ صالح الفوذان نے کہا :
موجودہ وقت میں اس اُمت کو درپیش سب سے زیادہ خطرناک  معاملاان  جاہل مبلغین کا ہے جو آپنے آپ کو اہل علم میں سے سمجھتے ہیں، اور لوگوں کو  ( اپنےدین کی طرف) جہالت اور گمراہی کے ساتھ بلاتے ہیں-۔
] إيعناتول-المستفيد، 887/1[

یہاں ایک مثال پیشخدمت ہے کہ کسطرح  کم علم لوگ دین کو نقصان اور اسکے ستونوں کو ہلا کہ رکھ دیتے ہیں-:
آگے بڑنے سے پہلے یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ عالم کون ہوتا ہے؟: اسکے لئے مندرجہ زیل  لنک پر جایئں:
جسطرح مختلف لوگ مختلف   شعبوں میں مہارت رکھتے ہیں اسی طرح مختلف علماء بھی علوم دین کے مختلف شعبوں میں میں مہارت رکھتے ہیں-۔  تا ہم ان میں سے بعض نے آپنے محنت اور علم کی بدولت ایک الگ، انھوکہ اور اونچا مقاپ حاصل کیا، اور شیخ السلام اور محدث العصر  جیسے القاب سے نوازے گیے ۔ اپردیے گیے لنک میں عالم کی تعریف ہو سکتا ہے کہ  ان تمام امور جیسے کہ، علماء کے فضائل و برتری، یا ایک عالم بننے کے شرائط یا قوائد و ضوابط، لیکن پھر بھی یہ  لنک آپکو  ان شرائط کے بارے میں ایک سرسری جائزہ دیتا ہے جس پر ایک عالم کا پورا اترنا لازمی ہے-اور یہ خود ہی ایک عالم کی فوقیت ایک ام آدمی پر ظاہر کرتا ہے-
3) -  علم کی برتری، فضائل اور ضرورت  (مختصراً بیان کی گئ ہیں)۔:

علم اور اللہ تعالیٰ کا خوف ،اُسکی نشانیاں اور  تخلیق سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔ علم والے وہ لوگ ہے جو جانتے ہے ، اس لیے اللہ نے انکی تعریف قرآن میں کچھ یوں کی  :
"خدا سے تو اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں"]سورة فاطر : 35:28[
اسلام میں علماء  ایک ام آدمی کے مقابلے میں  ایک بہت بڑا مقام ہے ، اس دنیا میں  بھیاور اخرت میں بھی ہے۔ اللہ کا فرمان ہے :
"جو لوگ تم میں سے ایمان لائے ہیں اور جن کو علم عطا کیا گیا ہے خدا ان کے درجے بلند کرے گا"]سورة المجادلة : 58:11[
علم کی اہمیت کی وجہ سے اللہ نے رسول ﷺ کو اس سے زیادہ علم حاصل کر نے کا حکم دیا۔
اللہ کا فرمان ہے:
 اور دعا کرو کہ" میرے پروردگار مجھے اور زیادہ علمدے" ]سورة طه : 20:114[


علماء کی تعریف میں اللہ نے فرمایا:
"کہو بھلا جو لوگ علم رکھتے ہیں اور جو نہیں رکھتے دونوں برابر ہوسکتے ہیں؟ (اور) نصیحت تو وہی پکڑتے ہیں جو عقلمند ہیں"
 ]سورة الزمر: 39:9[

علم راکھنے والے لوگ جلد سچ سمجھتے ہیں اور اس میں یقین کرتے ہیں۔
"اور یہ بھی غرض ہے کہ جن لوگوں کو علم عطا ہوا ہے وہ جان لیں کہ وہ (یعنی وحی) تمہارے پروردگار کی طرف سے حق ہے تو وہ اس پر ایمان لائیں اور ان کے دل خدا کے آگے عاجزی کریں" ]سورة الحج :22:54[
"خدا تو اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور فرشتے اور علم والے لوگ جو انصاف پر قائم ہیں وہ بھی (گواہی دیتے ہیں کہ) اس غالب حکمت والے کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں"]سورة آل عمران: 3:18[
"کسی آدمی کو شایاں نہیں کہ خدا تو اسے کتاب اور حکومت اور نبوت عطا فرمائے اور وہ لوگوں سے کہے کہ خدا کو چھوڑ کر میرے بندے ہو جاؤ بلکہ (اس کو یہ کہنا سزاوار ہے کہ اے اہلِ کتاب) تم (علمائے) ربانی ہو جاؤ کیونکہ تم کتابِ (خدا) پڑھتے پڑھاتے رہتے ہو" ]سورة آل عمران: 3:79[
"اور کافر لوگ کہتے ہیں کہ تم (خدا کے) رسول نہیں ہو۔ کہہ دو کہ میرے اور تمہارے درمیان خدا اور وہ شخص جس کے پاس کتاب (آسمانی) کا علمہے گواہ کافی ہیں" ]سورة الرعد: 13:43[
"وہ جس کو چاہتا ہے دانائی بخشتا ہے۔ اور جس کو دانائی ملی بےشک اس کو بڑی نعمت ملی۔ اور نصیحت تو وہی لوگ قبول کرتے ہیں جو عقلمند ہیں" ]سورة البقرة : 2:269[
"جو لوگ تم میں سے ایمان لائے ہیں اور جن کو علم عطا کیا گیا ہے خدا ان کے درجے بلند کرے گا" ]سورة المجادلة: 58:11[
رسول ﷺنے فرمایا علم کا حصول جنت کےلیے ایک راستہ ہے ۔
مَنْ سَلَكَ طَرِيقًا يَلْتَمِسُ فِيهِ عِلْمًا سَهَّلَ اللَّهُ لَهُ طَرِيقًا إِلَى الْجَنَّةِ
"رسول ﷺ نے فرمایا : جس نے علم سیکھنے کے لیے کوئی راستہ اختیارکیا،اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت کا ایک راستہ آسان کر دیتے ہے"- ]ترمذی : جلد:2 حدیث 541[
رسول ﷺ نے فرمایا :
إذا مات الأنسان انقطع عمله إلا من ثلاث‏:‏ صدقة جارية، أو علم ينتفع به، أو ولد صالح يدعو له
"جب مرجاتا ہے آدمی تو اس کا عمل موقوف ہو جاتا ہے مگر تین چیزوں کا ثواب جاری رہتا ہے۔ ایک صدقہ جاریہ ، دوسرے علم کا جس سے لوگ فائدہ اٹھائیںاور تیسرے نیک جنت بچے کا جو دعا کرے اس کے لیے"
]صحیح مسلم : 4223[

رسول ﷺ نے فرمایا:
نَضَّرَ اللَّهُ امْرَأً سَمِعَ مِنَّا حَدِيثًا فَحَفِظَهُ حَتَّى يُبَلِّغَهُ فَرُبَّ حَامِلِ فِقْهٍ إِلَى مَنْ هُوَ أَفْقَهُ مِنْهُ وَرُبَّ حَامِلِ فِقْهٍ لَيْسَ بِفَقِيهٍ
"اللہ تعالیٰ اُس شکص کو  خوش رکھے جس نےہم سے کوئی حدیث سنی پھراسے یاد رکھا یہاں تک کہ اسے دوسروں تک پہنچایا اس لیے کہ بہت سے فقیہ اسے اپنے سے زیادہ فقیہ شخص کے پاس لے جاتے ہیں اور  بہت سے حاملین فقہ خود فقیہ نہیں ہوتے"
]ترمزی : جلد 2 : حدیث 551،امام ابو داؤد، سنن، کتاب علم، نمبر 3660 ، ابن ماجہ، سنن، کتاب زہد، نمبر 4105 ، امام احمد بن حنبل، مسند، ج 5، ص 183 ۔ اور امام دآرامی، سنن، تعارف، نمبر 229 ۔[

رسول ﷺ نے فرمایا :
من يرد الله به خيرًا يفقه في الدين‏
"اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ بھلائی کاارادہ کر تا ہے تو اسے دین کی سمجھ عطا کرتا ہے"
] متفق علیہ -ترمزی: جلد 2 حدیث 540[
مزید مطالعے کے لیے ےیہاں کلک کرے :http://the-finalrevelation.blogspot.in/2013/03/the-children-who-sought-knowledge-of.html




آپ یقین کیجئے کہ علم کی اہمیت پر احادیث و اثار سلف پر ہزار صفحوں سے بھی زیادہ لکھا جا سکتا ہے- تقریبا ہر حدیث کی کتاب میں ایک  باب ،علم کے فضائل پر ماخوذ کیا گیا ہے- امام نسائی اور بہت سے دوسرے اسلاف نے اس موضوع پر کافی بڑی کتابیں تصنیف کی ہیں۔ حصول علم اور تدریس علم کی اہمیت کا ایک انسان صرف تصور ہی کر سکتا ہے-

4) وہ  بڑا مسلہ جو قرانی آیات ، احادیث اور اسلامی احکامات کی   اپنی رائے اور منطق   کے مطابق تشریح کرنے سے پیدا ہوتا ہے۔:

خود ساختہ تشریح  اور بغیر سیاق و سباق  کے (عبارت) کی سمجھ  دور جدید کی پیداوار نہیں بلکہ تب سے ہے  جب سے انسان کی تخلیق ہوئی ہے۔ نبی ﷺ کے دور میں بھی  صحابہ بعض آیات کی اپنے فہم سے تشریح کرتے تھے،اور خود رسول ﷺ  انکو درست فرماتے اور انکی رہنمائی کرتے تھے  ۔ صحابہ کرام کے  دور میں بھی لوگ اپنے طور پر علم اور فہم کی کمی کی وجہ سے غلط   تشریح کرتے تھے۔ اسکی ایک بہت بڑی مثال خوارج کی ہے جنہوں نے قرآن کی خود ساختہ تشریح کی۔  جو کچھ خوارج نے کیا، اور جو انجام انکا ہوا وہ سب ہمارے سامنے ہے اور نبی ﷺ نے ان لوگوں کے بارے میں پیشن گوئی کی کہ  "قران  ان لوگوں کے حلق سے نیچے نہیں اُترے گا" مطلب یہ کے قران کی صحیح سمجھ نہیں آیئگی ۔
ایک مثال مندرجہ ذیل  ہے :


عمر رضی الله عنہ  نے لوگوں کو خطبہ دینا چاہا لیکن حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے عرض کیا:
"یا امیرالمؤمنین ایسا نہ کیجئے ۔ حج کے موسم میں کم سمجھی اور برے بھلے ہر ہی قسم کے لوگ جمع ہیں اور جب آپ خطاب کے لئے کھڑے ہوں گے تو آپ کے قریب یہی لوگ زیادہ ہوں گے اور مجھے ڈر ہے کہ آپ کھڑے ہو کر کوئی بات کہیں اور وہ چاروں طرف پھیل جائے ، لیکن پھیلانے والے اسے صحیح طور پر یاد نہ رکھ سکیں گے اور اس کے غلط معانی پھیلانے لگیں گے ، اس لیے مدینہ منورہ پہنچنے تک کا انتظار کر لیجئے کیونکہ وہ ہجرت اور سنت کا مقام ہے ۔ وہاں آپ کو خالص دینی سمجھ بوجھ رکھنے والے اور شریف لوگ ملیں گے ، وہاں آپ جو کچھ کہنا چاہتے ہیں اعتماد کے ساتھ ہی فرما سکیں گے اور علم والے آپ کی باتوں کو یاد بھی رکھیں گے اور جو صحیح مطلب ہے وہی بیان کریں گے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا ہاں اچھا اللہ کی قسم میں مدینہ منورہ پہنچتے ہی سب سے پہلے لوگوں کو اسی مضمون کا خطبہ دوں گا ۔ ان شا اللہ "
 ]بخاری6830 [


4.1) دنیاوی مثالیں:
 اگراندازة کہا  جائے کہ  زمین پر 5 ارب  سےبھی زیادہ لوگ ہیں اور اس سوال کا ہر ایک کے پاس الگ جواب ہو گا کہ  1+1 سے کیا بنتا ہے ؟ کچھ کہیں گے ،3 کچھ 33 ، کچھ لوگ ریاضیات کے ساتھ آئے اور کچھ لوگ مختلف  فارمولوں کے ساتھ۔ اب اس کو کیا کہا  جاییگا؟



جواب: افرا تفری و انتشار .
اسی طرح  اس بارے میں کیا  خیال ہے کہ ہر ایک بندہ  اپنے نقطہ نظر اور اپنی من پسند اصولوں کے مطابق گاڑی چلائے ؟  کچھ توکہیں گے کہ ہم دوسروں سے  نہ صرف علمی بلکہ ہر لحاظ سے بہتر ہیں اور اس لئے ہمیں فٹ پاتھ پر بھی گاڑی چلانے کا حق ہے ۔ اسی طرح اور لوگ بھی اپنے اپنے نقطہ نظرکے ساتھ آینگے- اب اس صورت حال کو  کیا کہا جائیگا ؟
جواب : افراتفری  اور انتشار

 اس مثال کا اطلاق
سائنس، علم نجوم، میکینکس، کارپینٹری، وغیرہ  پر بھی ہوتا ہے اورجسکا نتیجہ انتشار و افرا تفری کی سواء کچھ نہیں-اسکا جواب اور حل اس مثال کے بعد بیان کیا جایگا –

4.2) مذہبی مثالیں:
«مَهْلًا يَا قَوْمِ، بِهَذَا أُهْلِكَتِ الْأُمَمُ مِنْ قَبْلِكُمْ، بِاخْتِلَافِهِمْ عَلى أَنْبِيَائِهِمْ، وَضَرْبِهِمِ الْكُتُبَ بَعْضَهَا بِبَعْضٍ، إِنَّ الْقُرْآنَ لَمْ يَنْزِلْ يُكَذِّبُ بَعْضُهُ بَعْضًا، إِنَّمَا يُصَدِّقُ بَعْضُهُ بَعْضًا، فَمَا عَرَفْتُمْ مِنْهُ فَاعْمَلُوا بِهِ، وَمَا جَهِلْتُمْ مِنْهُ فَرُدُّوهُ إِلى عَالِمِه»
پہلی مثال :
قران کے ایک سورہ میں بتایا گیا ہے کہ انسان کو مٹی سے پیدا کیا گیا ہے اور دوسرے سورہ میں بتایا گیا ہے کے انسان کو پانی سے پیدا کیا گیا ہے ۔ تو اب ایک ایسا انسان جو کہ  بنیادی اصول سے با لکل بے خبر ہے یا  قرآن کو سمجھنے اور لاگو کرنے کے حوالے سے  اس نے کوئی تعلیم حاصل نہیں کی وہ  یہی دعوی کرے گا کہ قرآن میں تضاد ہے۔ تاہم، جب ہم اصولوں کی روشنی میں انکی مصالحت کرتے ہیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ قرآن میں تضاد نہیں ہے بلکہ انسان مٹی اور پانی کا مرکب ہے۔  سائنس بھی اسی بات کو ثابت کرتی ہے۔ مندرجہ ذیل حدیث اس مثال کو مزید واضخ کرتی ہے  :
امام احمد نے  راوایت کیا ہے کہ :امر بن شعیب نے کہا ، کہ میرے والد نے کہا کہ، میرے دادا نے کہا   کہ میں اور میرا بھائی ایسی مجلس میں بیٹھے تھے کہ جو مجھے سرخ اونٹوں سے بھی زیادہ عزیز ہے-   ایک دفعہ میں اپنے بھائی کے ساتھ آیا تو کچھ بزرگ صحابہ رضی اللہ عنہ مسجد نبوی کے کسی دروازے کے پاس بیٹھے ہوئے تھے ، ہم نے ان سے دور بھیٹنا گوارا نہ کیا اور انکے ساتھ ہی بیٹھ گئے ، اس دوران صحابہ اکرام نے قرآن کی ایک آیت کا تذکرہ چھیڑا اور اس کی تفسیر میں ان کے درمیان اختلاف رائے ہو گیا ، یہاں تک کہ ان کی آوایں بلند ہونے لگیں ، نبی ﷺ ، غضب ناک ہوکر باہر نکلے ، آپ ﷺ کا چہرہ مبارک سرخ تھا اور آپ ﷺ نے ان پر ریت پھینکی  اورفرما یا لوگوں رک جاؤ ، تم سے پہلی امتیں اسی وجہ سے ہلاک ہوئیں کہ انہوں نے اپنے انبیاء سے اختلاف کیا اور اپنی کتابوں کے متصادم حصّوں کی وجہ سے  ، قران اس طرح نازل نہیں ہوا کہ اس کا ایک حصہ دوسرے کی تکذیب کرتا ہو ، بلکہ وہ ایک دوسرے کی تصدیق کرتا ہے ، اس لئے تمہیں جتنی بات کا علم ہو ، اس پر عمل کرلو اور جو معلوم نہ ہوتو  اس کے عالم سے معلوم کرلو۔
] مسند احمد (6702) ،احمد شاكر (10/174) کی طرف سے صحیح قرار دیا ہے، سنن بيہقى (635) ، مشکوۃ (237)[]

 جیسا کہ ہم دیکھ سکتے ہیں  کہ صحابہ جو  اس امت  کے بہترین لوگ ہیں ، انہوں نے بھی ایک دوسرے سے  اپنی فہم کی  بنیاد پر اختلاف کیا جس پر نبی ﷺ  کی ڈانٹ  پڑھی ا ور انہیں درست کیا اور انہیں نصیحت کی کہ  آپ ان  سے پوچھو جو آپ سے زیادہ علم رکھتے ہیں (یعنی  اہل علم)۔ یہاں پر  نبی ﷺ خود استاد تھے پس خود ہی انکے غلطیوں کو ٹھیک کیا، تا ہم  جیسا کہ ہمیں پتہ ہے کہ علماء  رسول ﷺ کے علم کے وارث ہیں ،ہمیں انکے ذریعے سے قران اور سنت کی روشنی میں رہنمائی حاصل کرنی چاہیے۔


دوسری مثال:
فرض کریں  ہم عربی زبان کے  ماہرین سے سوال کریں کہ " دیوالیہ کا کیا مطلب ہوتا ہے"؟وہ اسکا جواب ایک واضح  انداز میں دیں گا ، اگر ہم اسکو سادہ الفاظ میں سمجھے تو اسکا مطلب ہو گا  کہ ایک ایسا شخص جو پیسوں سے کنگال ہوا ہو۔ اب چلیں دھیکتے ہیں کیا یہی منطق اسلام میں استعمال ہو سکتا ہے؟
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
أتدرون من المفلس‏؟‏‏"‏ قالوا ‏:‏ المفلس فينا من لا درهم له ولا متاع فقال‏:‏ ‏"‏إن المفلس من أمتي يأتي يوم القيامة بصلاة وصيام وزكاة، ويأتي قد شتم هذا، وقذف هذا وأكل مال هذا، وسفك دم هذا، وضرب هذا، فيعطى هذا من حسناته، وهذا من حسناته، فإن فنيت حسناته قبل أن يقضي ما عليه، أخذ من خطاياهم فطرحت عليه، ثم طرح في النار
"تم جانتے ہو مفلس/دیوالیہ کون ہے ؟" لوگوں نے عرض کیا : مفلس/دیوالیہ ہم میں وہ ہے جس کے پاس روپیہ اور اسباب نہ ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا : " مفلس دیوالیہ میری امت میں قیامت کے دن وہ ہوگا جو نماز لائے گا ، روزہ اور زکوٰۃ لیکن اس نے دنیا میں ایک کوگالی دی ہوگی ، دوسرے کوبدکاری کی تہمت لگائی ہوگی ، تیسرے کا مال کھالیا ہوگا ، چوتھے کا خون کیا ہوگا، پانچویں کو مارا  ہوگا پھر ان لوگوں کو (یعنی جن کو اس نے دنیا میں ستایا) اس کی نیکیاں مل جائیں گی اور جو اس کی نیکیاں اس کے گناہ ادا ہو نے سے پہلے ختم ہوجائیں گی تو ان لوگوں کی برائیاں اس پر ڈالی جائیں گی  اور وہ  جہنم میں ڈال دیا جائے گا"۔
 ]صحیح مسلم 6579[


ایک اور مشہور حدیث ہے : ایک دن رسولﷺ نے ایک اعرابی کو  دیکھا  کہ  اسنے اپنےا ونٹ کو  باندھے بغیر  چھوڑ دیا-آپ ﷺ نے اعرابی سے پوچھا:
 "کیوں تم اپنے اونٹ کو نہیں باندھتے ؟:
  عرابی نے جواب دیا:
 " میں اللہ پے اعتماد رکھتا  ہوں ، اسکے بعد رسول ﷺ نے کہا،
 ”اعقلها وتوكّل"
تم پہلے اونٹ کو باندھو ، پھر اللہ پر عتماد رکھو۔
]ترمذی، صحیح الجامع 1068میں بھی دیکھے [

اب ذرا تصور کریں ، کہ اگر کوئی بندہ اب اس پر بحث کرے کہ یہ حدیث یا  ہر حدیث پر عمل لفظی  اعتبار سے کرنا  ہو گا ، تو پھر تو سب لوگ پہلے اونٹ خریدنے جاینگے اور پھر اسکو  باندھینگے اور پھر الله پر توکل کرینگے – اب کیا اس بات کا کوئی منطق بنتا ہے   ؟
لیکن ظاہر ہے اس روایت کےمطلب ہے  کہ  انسان کے بس میں جتنا ہو اتنا کرے اور باقی الله پر چھوڑ دے۔ 




صحابہ کا اپنے فہم سے تشریحات کرنے بعدمیں رسول اللہﷺ کا انکو درست کرنے کی ایک اورمثال:
ابن عبدالرحمن ابزی سے روایت ہے کہ ایک شخص کو غسل کرنے کی ضرورت پیش آگئ وہ شخص حضرت عمر کی خدمت میں آیا اور ان سے کہا کہ میں جنبی ہوں اور غسل کر نے کے واسطے مجھ کو پانی نہیں مل سکا تو میں کیا کروں؟ حضرت عمر نے کہا کہ تم ایسی صورت میں نماز نہ پڑھو ۔ حضرت عمار بن یاسر نے فرمایا کیا تم کو یہ یاد نہیں ہے کہ جس وقت ہم لوگ ایک لشکر میں تھے پھر ہم لوگوں کو غسل کرنے کی ضرورت پیش آگئ۔ تم نے تو نماز ہی نہ پڑھی تھی لیکن میں نے مٹی میں لوٹ پوٹ ہوکر نماز پڑھی تھی۔ پھر میں خدمت نبوی ﷺ میں حاضر ہوا اور آپ ﷺ سے واقعہ عرض کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا تم کویہ کر نا بالکل کافی تھا اور حضرت شعبہ نے اپنی ہتھیلی زمین پر ماری پھر اس  پر پھونک ماری اس کے بعد دونوں ہاتھوں کی ہتھیلی کو ملا پھر چہرہ پر مسح فرمایا۔
] بخاری، امام جامع صحیح، جلد1، ص51 اورنمبر347 ۔ فتح الباری 1/455اور سنن نسائی، باب 1، کتاب کی طہارت، حدیث نمبر 320[

تیسری مثال:
"جو لوگ ایمان لائے اور اپنے ایمان کو (شرک کے) ظلم سے مخلوط نہیں کیا" (6:82)
جب یہ آیت نازل ہوئی تو اللہ کے رسول ﷺ کے  صحابہ پریشان ہو گئے  اور ہم میں سے کون ہے جس نےاپنے ایمان کو ظلم سے مخلوط نہیں کیا؟ (یہاں پر صحابہ نے اسکا لغوی معنی لیا) ، رسول ﷺ نے کہا  اسکا مطلب  وہ نہیں ہے، کیا تم نے نہیں سنا لقمان علیہ سلام نے کیا کہا : " اے میرے بیٹے! اللہ کے ساتھ عبادت میں  کسی کو شریک نہ کرو بے شک اللہ کے ساتھ عبادت میں دوسروں کو شریک کرناایک عظیم ظلم (گناہ،غلطی ) ہے ۔ یہ حدیث مسلم نے روایت کی ہے۔


شیخ ماہر قہطانی نے ایک ٹیپ میں اس حدیث کے بارے میں  کہا ہے :
قران مجید  اور قول رسول ﷺ کی تشریح سنت کے بغیر کوئی نہیں کر سکتا  ، جہاں تک قرآن کی عربی میں تشریح  کی بات ہے تو یہ صحابہ کے لئے بھی ممکن نہیں تھا-ایک دفعہ صحابہ  نے قرآن کی عربی میں تشریح کی کوشش کی لیکن   رسول ﷺ نے انکی تردید کی -
] دیکھئے تفسیر سورہٴ ٣١: ١٣ ، کتاب الیمان من الصیح ، امام مسلم[

اس آیت:
"الَّذِينَ آمَنُواْ وَلَمْ يَلْبِسُواْ إِيمَانَهُم بِظُلْمٍ"
کی تشریح صحابہ نے صرف عربی زبان  میں کی  تھی - ،بِظُلْمٍکی تشریح  صحابہ نے "نا  انصافی "کی تھی  ۔ تورسول ﷺ نے   انکی اصلاح کی اور انہیں بتایا کہ اسکا یہ مطلب نہیں ہے بلکہ  اس کا مطلب شرک ہے ۔ پس جو کچھ نازل کیا گیا اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ایک انسان عربی زبان پر کتنا عبور رکھتا  ہے اور وہ کتنا  ہی علم والا ہو  لیکن قرآن کو سمجھنے کے  لئے صحیح  سنت کی طرف لوٹاجائے گا۔
  (قران کی تشریح  کر تے وقت  سُنت کے بغیر عربی زبان بے  کار ہے)۔ اور  سُنت ، حدیث اور شواحد سے معلوم ہوتی ہے ۔۔۔

چوتھی مثال:
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نےرسول ﷺسے سنا :

الرُّؤْيَا الْحَسَنَةُ مِنَ اللَّهِ، فَإِذَا رَأَى أَحَدُكُمْ مَا يُحِبُّ فَلاَ يُحَدِّثْ بِهِ إِلاَّ مَنْ يُحِبُّ، وَإِذَا رَأَى مَا يَكْرَهُ فَلْيَتَعَوَّذْ بِاللَّهِ مِنْ شَرِّهَا، وَمِنْ شَرِّ الشَّيْطَانِ وَلْيَتْفِلْ ثَلاَثًا وَلاَ يُحَدِّثْ بِهَا أَحَدًا فَإِنَّهَا لَنْ تَضُرَّهُ ‏
جب تم میں سے کوئی شخص خواب دیکھے جسے وہ پسند کرتا ہو تو وہ اللہ کی طرف سے ہوتا ہے اور اس پر اسے اللہ کی تعریف کرنی چاہئیے اور اسے بیان بھی کرنا چاہئیے اور جب کوئی خواب ایسا دیکھے جسے وہ ناپسند کرتا ہو تو وہ شیطان کی طرف سے ہے اور اسے چاہئیے کہ اس کے شر سے اللہ کی پناہ مانگے اور اس کا ذکر کسی سے نہ کرے ‘ کیونکہ وہ اسے ہرگز نقصان نہیں پہنچا سکے گا ۔
] صیح بخاری: 7045[

اس دنیا میں ایسے بہت سارے جاہل لوگ ہیں سمجھتے ہیں کہ انکا فہم اور منطق  علماء سے برتر ہے، وہ علماء جنہوں نے اپنی پوری زندگی  دین کے مطالعے  میں صرف کردی  اور پھر بھی بستر مرگ پر انکے منہ   سے یہ الفاظ نکلتے رہے  " کاش کہ میں اس سے زیادہ جانتا اور اس سے زیادہ مطالعہ کرتا کیوں کہ میں کچھ نہیں جانتا "-  اگرمندرجہ  بالا حدیث کو ایک  عام آدمی کے  فہم کے مطابق سمجھا جائے  تو اسکا مطلب ہوگا کہ      کہ اگر کوئی شخص خواب میں عورت اور دولت دیکھے جو اسے بہت پسند ہو تو وہ سمجھے گا کہ بھائی یہ خواب تو اللہ کی طرف سے ہے چلو سب کو بتاؤ ، اور اسی طرح اگر ایک شخص خواب میں دیکھے کہ وہ غریب ہے اور دنیا کے عیش  و آرام سے دور ہے  ، تو وہ کہے گا کہ بھائی مجھے تو یہ خواب بالکل پسند نہیں اور یہ شیطان کی طرف سے ہے-۔  اعوذ بِااللہ! لیکن ہاں اگر لوگ اس طرح  اپنا دماغ اور  اپنا فہم حدیث کو سمجھنے میں استعمال کرتے رہے تو پھر اس طرح کے ہی تشریحات سامنے آ ینگے - ۔ اور  اسلئے  ہم کہتے ہیں کہ  علماء سے رجوع  کرو کیوں کہ ایک درست ؤ مناسب اور صحیح علم ہی ہمیں بتاتا ہے کہ نا جائز  رشتے اور حرام دولت کہ خواب اچھے نہیں ہیں ۔
ایک اور مثال آج کے زمانے کی یہ ہے کہ آج جتنے بھی فرقے ہیں ہر ایک کا دعوی  ہے کہ وہ قرآن و سنت پر قائم ہیں  لیکن ان میں سے بہت قرانی آیات اور احادیث کی تشریح اپنے ہی  فہم اور خواہشات کے مطابق کرتے ہیں  جو ایک بہت بڑے فتنے کا با عث بنی ہے-

اس کے ساتھ ساتھ ہم پانچویں مثال پرآ تے ہیں :
قادیانی( ایک حالیہ فرقہ یا اسلام کی ایک شاخ) کہتے ہیں نبوت کا سلسلہ ابھی تک ختم نہیں ہوا ، انکا دعوی ہے کہ محمدﷺ کے بعد بھی نبی آئینگے، اور ان لوگوں کا عقیدہ ہے کہ ان نبیوں میں سے ایک  ہندوستان کے ایک شہر قادیان میں آیا، اور جو کوئی بھی انکے نبی میں ایمان نہ لائے وہ کافر ہے۔ وہ یہ ایسا کیسے کہہ سکتے  ہیں  جب کے واضح  آیت ہے  ، "بلکہ (محمد)الله کے رسول اور آخری نبی   ہیں۔۔۔۔ ]سورة الأحزاب : 33:40[  وہیہ کیسے کہہ سکتے ہیں جب کہ متواتر احادیث میں آیا ہے  کہ ،
 "میرے بعد کوئی نبی نہیں" ]بخاری اور مسلم[

پس ان لوگوں نے قرآن کی غلط اور من پسند تشریح کی اور  اسکی وضاحت سے قاصر رہے جسطرح وضاحت سلف صالحین نے کی  ، وہ وضاحت جس پر مسلمان نسل د ر نسل عمل پیرا تھے، حتی کہ اس کذاب دجال غلاماحمد پرویز قادیانی  نے نبوت کا دعوی کر دیا،- اسکی ایک لمبی کہانی ہے جسکی وضاحت یہاں ضروری نہیں ۔ بہت سے لوگ( جنہیں اس اصول کا پتہ نہیں تھا کہ قرآن و سنت کو سلف صالحین کے فہم پر سمجھنا فرض ہے، اور جو ایک مسلمان کے لئے فتنوں اور گمراہی سے بچنے کا  واحد راستہ ہے )  اس دجال کے دعوی کو سچ مان بھیٹے اور یہ بیوقوف اس دجال کے نبوت کے فریبی دعوے میں سلف صالحین کا راستہ چھوڑ گئے-

تو پھر کیا کیا  غلام پرویز قادیانی نے اس آیت کے ساتھ کہ "بلکہ (محمد ﷺ )خدا کے پیغمبر ہیں اور نبیوں کے مہر  ہیں"؟ اسنے کہا کہ  مہر کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ انکے بعد کوئی نبی نہیں  آئیگا بلکہ مہر کا مطلب  ہے کہ  محمد ﷺ انبیاءکی زینت  ہیں ۔  تو  پس انہوں نے اس آیت سے انکار نہیں کیا  اور نا یہ کہا کہ الله نی یہ آیت رسول پر نازل نہیں کی بلکہ انھیں اسکے اصل اور صحیح معنی اور تشریح سے انکار کیا-  تو بتایئے کیا فائدہ ایسے الفاظ میں یقین رکھنے کا جسکا حقیقی  معنی سے کوئی تعلق   نہ ہو-
] شیخ شدی  نعمان کی موسوعات علامہ ،مجدد العصر محمد ناصر الدین البانی، ، جلد1، صفحہ 212-230 سے لیا گیا اقتباس[
چھٹی مثال
 شیخ البانی کا کہنا ہے :

چلیں اسکو سمجھنے کے لئے ایک مثال دیتے ہیں جس سے یہ حقیقت اور عیاں ہو جایئگی جس میں کوئی شک نہیں اور نہ ہیں کوئی اس سے انکار کر سکتا ہے ۔ اللہ (سبحانه و تعالى)فرماتے ہے :
"اور جو چوری کرے مرد ہو یا عورت ان کے ہاتھ کاٹ ڈالو……" (سورة المائدة : 5:38)  
اب ذرا غور کریں کہ کسطرح  قرآن کو سمجھنے کے لئے   ہم صرف عربی لغت کا استعمال نہیں کر سکتے- لغت کی اعتبار سے سے "چور" ہر وو شخص ہوتا ہے جو ایک محفوظ جگہ سے کوئی چیز چرائے، اسکی مالیت چاہے جتنی بھی ہو یا ایسا بھی ہو سکتا ہے اسکی مالیت کچھ بھی نہ ہو، ہو سکتا ہے اسنے ایک انڈا چرایا ہو،یا ایک روپیہ یا پانچ روپے چرائے ہوں، تو لسانی یا لغت کے اعتبار سے ایسا شخص  چور کہلائیگا –
۔  اللہ فرماتا ہے  : "اور جو چوری کرے مرد ہو یا عورت ان کے ہاتھ کاٹ ڈالو……" تو پھر سوال یہ بنتا ہے کہ کیا ہر چور کے ہاتھ کاٹ دیے جاینگے  ؟
جواب ہے نہیں۔
کیوں ؟
کیونکہ جو شخصیت وضاحت کر رہی ہے اور جسے وضاحت کی ذمداری سونپی گئی ہے  وہ ہےمحمد ﷺ  اور جس چیز کی وضاحت کی جا رہی ہے وہ ہے الله کا کلام (یعنی یہ آیت)،  محمد ﷺ ہمیں وضاحت دے رہے ہیں کہ چور (  مرد یا عورت ) میں سے کس کے ہاتھ کاٹے جاینگے-
" لاَ تُقْطَعُ الْيَدُ إِلاَّ فِي رُبُعِ دِينَارٍ"
"چوتھائی دینار یا اس سے زیادہ پر ہاتھ کاٹ لیا جائے گا "
]بخاری اور مسلم (نمبر:6789) ،ابو بکر بن محمد بن عمر بن حزم کی سند سے  عائشہ بنت ابی بکر سے روائیت ہے[
پس یہاں سے ایک اہم بات پتہ چلی جسکی طرف طالب علم کوئی دیہان نہیں دیتے: کہ ایک طرف ہے روایتی عربی زبان دوسری طرف ہے شرعی  زبان جسکی بنیاد الله نے خود رکھی۔ اہل عرب جو قران کی زبان بولتے تھے، قران جن کی زبان میں نازل ہوا، انکو اس سے پہلے عربی زبان کی ایسی شرعی  استعمال کا علم نہیں تھا ۔ تو پس جب لسانی یا لغت کے  اعتبار  چور کا لفظ استعمال ہو تو اسکے زمرے میں سا رے چور آیینگے ، لیکن جب شریعت کے معنوں میں اسکا   ذکر کیا جاتا ہے تو ہر چور شامل نہیں ہو گا  ، لیکن  صرف وہ جو ایک چوتھائی دینار یا اس سے زیادہ چوری کرے۔
پس یہ ایک بہترین مثال ہے جو ہمیں اس بات کا ثبوت دیتا ہے کہ قرآن و سنّت کو سمجھنے کے لئے عربی زبان بمع اپنے فہم اور منطق کا استمعال غلط ہے  ۔ اور   یہی وہ چیز ہے جس میں آج کے مصنفین پڑھ گئے ہیں۔  وہ روایتی عربی زبان کا اطلاق  قرانی آیات اور حدیث نبوی پر کرتے ہیں اور   نتیجتہ  ایسے تشریحات اور وضاحتیں سامنے آتی ہیں جنہیں امّت مسلمہ نے کبھی نہیں سنا -   یہی وجہ ہے کہ ہم کہتے ہیں کہ اسلام کے حقیقی  پیغام کو سمجھنے کے لئے  یہ جاننا واجب ہے کہ  اسلام کی بنیاد تین اصولوں پر قایم  ہے-
1.   کتاب (قران)
2.   سُنت
3.   سلف صالحین کا منہج و فہم





ساتویں  مثال :
ان لوگوں کی تردید میں جو  علماء کے فہم کی بجائے اپنے منطق و فہم کو ترجیح دیتے ہیں
 ۔
اس  آیت کے آخر میں  اللہ (سبحانه و تعالى)نے فرمایا:
 "انکے ہاتھ کاٹ ڈالو "-
 اب  ہاتھ کا مطلب کیا ہے ؟ ایک پورا ہاتھ ، اُنگلی تک  …………؟ تو پھر کلائی سے ، یا کوہنی سے ، یا مونڈھے سے کاٹنا  چاہئے ؟  نبی ﷺ اپنے اعمال کے ذریعے سے  اس کی وضاحت کی- ہاتھ کہاں سے کاٹا جائے اسکے بارے میں ہمارے پاس کوئی بھی مستند قول ﷺ  نہیں  ہے –بلکہ ہمارے پاس رسول ﷺ کا عمل(غیر زبانی) موجود ہے – تو ہمارے پاس یہ عمل کس طرح پہنچا ؟ ہمیں کس طرح پتہ چلا؟  ہمارے سلف و صالحین سے ،  رسول الله ﷺ کے صحابہ سے جنہوں نے اس عمل کو اگلے  نسل تک پہنچایا، اور اسی طرح انہوں نے اگے نسل تک، اور اسی طرح یہ بزریعہ  علماء ہمیں آج پہنچا۔
]شیخ شدی  نعمان کیموسوعات علامہ ،مجدد العصر محمد ناصر الدین البانی، ، جلد1، صفحہ 212-230 سے لیا گیا اقتباس[


آٹھویں مثال  ہمارے آج کے جدید دور سے :
سائل : اللہ (سبحانه و تعالى) آپکو سلامت رکھے ۔
  سائل کہتا ہے ، "ائے ہمارے شیخ ، کچھ لوگوں کا حدیث قدسی کے بارے میں کہنا ہے کہ :
'ائے میرے بندے ،میں بیمار تھا  اور تم نے میری عیادت نہیں کی …… " یہ مبہم معاملات  میں سے ہے اور اسے چھوڑ دینا  واجب ہے ۔ تو اس بارے میں آپکی کیا نصیحت ہے  ؟"
شیخ صالح الفوذان   (اللہ اُن ہے محفوظ رکھے ) کا  جواب :
اسے چھوڑو ؟؟؟؟؟ میں اللہ (سبحانه و تعالى)پناہ  مانگتا ہوں ! اس شخص کا مطلب یہ ہے ہمیں مبہم آیات اور حدیث کو چھوڈ دینا چاہیے ؟ نہیں ۔ ہم اُنکو نہیں چھوڑتے، تاہم  ہم اسے دوسرے حدیث اور آیات کے ساتھ انکی وضاحت کرتے ہیں۔ ہم اسے چوڑ نہیں سکتے ۔ ہم انکو صحیح و مستند  حوالہ دیتے ہے اور ہم اسکی وضاحت کرتے ہیں تاکہ انکے صحیح وضاحت  ہوجائے ۔ تاہم ،  یہ  پچیدہ جہالت ہے ، اس شخص کو نہیں معلوم ! اس کا ایک حصہ دوسرے حصہ کی وضاحت کرتا ہے۔ یہ روایت اگے کہتی ہے  ، میں آپ(اللہ) کی  عیادت کیسے کرسکتا ہوں جبکہ آپ  سارے جہاں کے رب ہیں ؟ اللہ (سبحانه و تعالى)فرماۓ گا  ، " بشک میر فلاں فلاں  بندہ بیمار تھا اور تم اس  کی عیادت نہیں کی، اور اگر تم اس کی عیادت کرتے تو تم اُس کے پاس مجھے پاتے۔"
تو یہ حدیث کا   ایک حصہ دوسرے حصے کی وضاحت کرتا ہے۔ تاہم، اس شخص ( جسنے اس طرح اسکا جواب دیا) کو وہ نہیں جانتا ۔ وہ مسکین (علم میں غریب) ہے ۔ اور میرے بھایئوں یہ ایک فتنہ کہ آج ایسے لوگ ہیں جو علم کا دعوی تو کرتے ہیں مگر انکو علم کہ بنیادی کا سرے سے پتا نہیں  ۔ وہ لوگوں کے سامنے اہل علم کی روپ میں آتے ہیں مگر ان کا علم ضعیف و ناقص ہوتا ہے ۔ یہ لوگ اسلام اور مسلمانوں کے لیے نقصان دہ ہے۔ اے میرے بھایئوں، علم کو علماء اور اسکے مستند اصولوں کے بغیر نہیں سیکھنا چاہیے ۔ اور یقنا علماء  نے انتھک محنت کی ہے، ہر ایک چیز کو بڑے باریک بینی سے دیکھا اور جانچا  ہے تب جا کہ علم کے اصول  جامع اور مستحکم ہوئے ہیں  ۔ اور درست صرف یہی ہے کہ علم علماء سے لیا جائے نہ کہ خود اکیلے کتابوں سے ۔ علم کو علماء سے سم کے لو، (یعنی علماء کی صحبت اختیا کرو) اور کتابیں صرف اوذار ہیں ، اور جو لوگ  لوگوں کو  تربیت دیتے  ہیں کتابوں کے ذریعے وہی علماء  ہیں ۔تو پس اگر آپ کتابیں لو اور آپکو انکے طریقہ استمعال کا پتا نہیں  تو آپ آپنے ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی ہلاک کر دوگے  ۔ پس اصول ہونا ضروری ہے ، جیساکہ   کہا جاتا ہے ، " تو جس کسی کے پاس اصول نہیں ہے، وہ جواب تک نہیں پہنچ سکتا -http://www.youtube.com/watch?v=C9vaIjdKJM4[
پس محظ عربی زبان یا  اسکے ترجمے، اپنے منطق، تہذیب و روایات ، خواہشات یا سمجھ وغیرہ کی بنیاد پر دین اسلام کو سمجھنا باطل ہے اور ہمیں دین کو اسکے اصلی معنوں میں سمجھنے کے لئے علماء سے رجوع کرنا ہوگا جیسا کہ قرآن و سنّت کا حکم ہے۔
4.3) بطور مثال حضرت عمر ررضی الله عنہ کے دور کےایک شخض کا واقعہ جسنےا پنے سمجھ و فہم سے  دینی معاملات و احکامات کی تشریح کرنے کی کوشش کی:
سُلیمان بن یاسر سے روایت ہے کہ  :  
قبلہ غنیم کا  صبیغ ابن اصل  نامی ایک شخص مدینہ آیا اور اسکے پاس کتابیں تھیں- اور اس نے لوگوں  سےمتشابحات ( وہ معاملات جن کی قرآن نے  وضاحت نہیں کی ہے)  کے بارے میں سوالات شروع کر دیے – یہ خبر عمر رضی الله عنہ تک پہنچی- تو عمر رضی الله نے کجھور کی کچھ شاخیں اکھٹا کیں –   پس جب عمر رضی الله اس شخص کے پاس پہنچے اور اسکے ساتھ بیٹھ گئے تو اس سے سوال کیا " کون ہو تم؟  اس نے کہا : " میں عبداللہ صبیغ  ہوں ، عمر رضی الله نے کہا : "  میں عبداللہ (الله کا بندہ) عمر ہوں- اور پھر عمر رضی الله نے اسے ان کجھور کی شاخوں سے مارنا شروع کر دیا ، اور عمر رضی الله نے اس شخص کو تب تک مارا  جب تک اسکا   سر پھٹ گیا اور اسکا چہرہ خون سے سرخ  ہو گیا- اس نے (صبیغ) نے کہا: یا امیر المومنین  بس کیجئے ، الله کی قسم جو (گند) میرے کھوپڑی میں تھا وہ نکل گیا
]شرح اصول الاعتقاد لالکائی(3/٦٣٥-٦٣٦) اور اور شیخ خالد دھوئ از ضفیری کے مقالات، نیز دیکھئے سنن دارمی (عبداللہ ہاشم یمنی، ١/١٥،# ١٤٦[

4.4). اس انتشاری ذہنیت اور بیماری کا حل:
جس طرح ڈرائیونگ کے اصول کے بارے میں اسکے ماہرین سے رجوع کرنا چاہیئے  اور جس   طرح ایک جمع ایک کا جواب ایک ریاض دان سے پوچھنا چاہیئے  اسی طرح، دین کے معاملات  میں بھی ان لوگوں سے رجوع کرنا چاہیئے جو کہ اس  میں ماہر ہوں- جس طرح ہم نے اوپر عرض کیا کہ کس طرح  اس امّت کے بہترین لوگ (صحابہ)  نے بھی قرآن کی لفظی تشریح میں غلطی کی جسے رسول الله  ﷺ  نے خود صحیح کیا- اور پھر ہم نے پڑھا کہ کسطرح  آج کے مختلف فرقوں نے دین کو اپنے منطق سے سمجھنے کی کوشش کی اور تباہی اور گمراہی کی طرف گامزن ہوئے-  پس ہمیں اس بات کی اہمیت کا پتہ چل گیا کہ دین ہمیں ان سے سیکھنا چاہیئے جو اسمیں ماہر ہیں ہ جو اسکا علم رکھتے ہیں  جو اہل علم ہیں اور اپنی منطق اور دماغ اور خواہشات کی بنیاد پر نہیں- ہم چاہیں جتنے بھی سمجھدار ہو جایئں صحابہ سے زیادہ سمجھدار نہیں ہو سکتے- اگر ان سے غلطی ہو سکتی ہے تو ہم سے بھی لازمی ہوگی -  اگر انھیں رسول ا للہﷺ   نے اہل علم سے رجوع کا حکم دیا  تھا تو ہمیں بھی اہل علم سے رجوع کرنا چایئے قطع نظر اس بات سے کہ ہم کتنے پڑھے لکھے   کیوں نہ ہوں-پس جب تک ہم دین کو  الله ، اسکے رسول ﷺ    اور سلف صالحین کے فہم پر بذریعہ  علماء نہیں سیکھیں گے  ہمیں کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی-ا ور اسی لیے عبدااللہ ابن المبارک(رحم الله عنه)نے کہا :
یہ بات صحیح ہے کہ ایک عقل مند شخص تین لوگوں کی بے قدری نہیں کرتا:
 علماء کی، حکمرانوں کی، اور اپنے مسلمان بھائی کی  ۔اور جو کوئی علماء کی  بے قدری کرتا ہے ( یعنی اُنکا احترام نہیں کرتا ، اُنکے علم کی قدر نہیں کرتا ، اُن سے علم حاصل نہیں کرتا ، وغیرہ)  اسکی آخرت کی زندگی  تباہ ہو گی-جو بھی حکمرانوں کی بے قدری کرےگا وہ دنیوی زندگی کھودیگا ، اور جو بھی اپنے بھائی (مسلمان) کی بے قدری کرےگا وہ اپنے اچھے اخلاق اور کردار کھودیگا ۔
]الذهبي، سير أعلام النبلاء' 17:251[

یہی وجہ ہے  اللہ  (سبحانه و تعالى)اور اُسکے رسول نے ہمیں  ہر وقت علماء  کا دامن پکڑنے کا حکم دیا ہے - جیساکے الله فرماتا ہے  :
مومنو! خدا اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرو اور جو تم میں سے صاحب حکومت ہیں ان کی بھی اور اگر کسی بات میں تم میں اختلاف واقع ہو تو اگر خدا اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہو تو اس میں خدا اور اس کے رسول (کے حکم) کی طرف رجوع کرو یہ بہت اچھی بات ہے اور اس کا مانجامبھی اچھا ہے۔  ]سورة النساء : 59[
اور جب ان کے پاس امن یا خوف کی کوئی خبر پہنچتی ہے تو اس کو مشہور کردیتے ہیں اور اگر اس کو پیغمبر اور اپنے سرداروں کے پاس پہنچاتے تو تحقیق کرنے والے اس کی تحقیق کر لیتے اور اگر تم پر خدا کا فضل اور اس کی مہربانی نہ ہوتی تو چند اشخاص کے سوا سب شیطان کے پیرو کارہوجاتے۔   ]سورة النساء : 83[
اور ہم نے تم سے پہلے مردوں، ہی کو پیغمبر بنا کر بھیجا تھا جن کی طرف ہم وحی بھیجا کرتے تھے اگر تم لوگ نہیں جانتے تو اہل کتابسے پوچھ لو ۔  ]سورة النحل : 43[
عن علي قال : قلت : يا رسول الله ، إن نزل بنا أمر ليس فيه بيان : أمر ولا نهي ، فما تأمرنا ؟ قال : تشاورون الفقهاء والعابدين ، ولا تمضوا فيه رأي خاصة
علی  (رضي الله عنه)فرماتے ہیں :اے نبی ﷺ :اگر  ہم پر کوئی ایسا معاملا آ جائے جسکے بارے میں ہمیہ نہیں جانتے کہ آیا اسے کیا جائے یا اس سے بچا جائے؟ تو ایسے معاملے کے بارے میں اپکا کا کیا حکم ہے؟    آپﷺ نے فرمایا : " آپنے فقہاء اور صالحین سے رجوع کرو، اورکسی ایک شخص کے رائے پر  نتیجہ اخذ نہ کرو-
]معجم الاوسط ۔ حدیث 1641، ابو یحییٰ نورپوری نے اسے حسن کہا [

5) مستند ذرائع اور حقیقی علماء سے  (علم) لینا   لازم ہے۔
عمران بن حسین رضی الله  فرماتے ہیں :
اے لوگوں ! دین کا علم ہم سے حاصل کرو  (رسول اللهﷺ کےطالب علم جو لوگوں سے زیادہ دین کی سمجھ رکھتے ہیں)-
[الکفایہ صفحہ ١٥. خطیب بغدادی]




إِنَّ هَذَا العِلْمَ دِيْنٌ فَانْظُرُوا عَمَّنْ تَأْخُذُونَ دِيْنَكُمْ-
بے شک یہ علم ہمارا دین ہے، پس تم دیکھو کہ کس سے اپنا دین حاصل کر رہے ہو؟
[الخطیب بغدادی ،الجامع الاخلاق الراوی  بہ روایت ابو ہریرہ اور انس رضی الله،
مستدرک الحاکم بہ روایت ابن سرین، اور ابن عون ان صحیح مسلم اور خطیب بغدادی کی الفقیح  ول متفقہ، ابن حبان کی ال مجروحین ١/١٥٢ بہ روایت ابنے عباس رضی الله]

امام مالک رحم الله نے فرمایا:
علم حدیث تمہارے گوشت اور  خون کے مانند ہے اور تم سے قیامت کے دن اسکے بارے میں سوال و جواب ہوگا- پس دیکھو کہ تم اپنا دین کس سے لے رہے ہو؟-
[ خطیب بغدادی کی المحدث الفاصل (صفحہ.٤١٦) اور الکفایہ (صفحہ.٢١)]

امام اوزاعی رحم الله فرماتے ہیں-
علم وہ ہے جسکا منبع صحابہ رسول صلی الله علیہ وسلم ہو، اسکے علاوہ جو بھی ہے وو علم نہیں-
[امام ذہبی، سير أعلام النبلاء، تاریخ دمشق ابنے عساکر جلد ٣٥ صفحہ 201-]


امام  عبد الله ابن مبارک نے فرمایا:
اسناد دین کا حصہ ہیں، اگر اسناد نہیں ہوتے تو پھر ہر شخص کی اپنی مرضی ہوتی جو چاہے (دین میں) کہ دے-
[امام مسلم مقدمہ صحیح مسلم ( ١٥/١) ، امام ترمذی  العلل، الجامع  (٢٣٢/6)، ابن حبان جرح و تعدیل (16/١/١)،الرامہ حرمزئی  المحدث الفاصل (صفحہ ٢٠٩)، ابن حبان المجروحین (٢٦/١)، الحاکم  المعارف العلوم الحدیث (صفحہ 6)، الخطیب کی تاریخ  میں (١٦٥/6)، الکفایہ (صفحہ ٥٥٨)، الجامع لاخلاق الراوی (١٦٤٣) اور شرف اصحاب الحدیث (٧٧،٧٨) میں عبدللہ بن مبارک سے بہ سند صحیح –]

وقال أيضا : حدثنا محمد بن إسماعيل قال حدثنا إبراهيم بن المنذر حدثنا معنبن عيسى قال كان مالك بن أنس يقول :لا يؤخذ العلم من أربعة ويؤخذ ممن سوىذلك :

-
1لا يؤخذ من سفيه معلن بالسفه وإن كان أروى الناس .

- 2
ولا يؤخذ من كذاب يكذب في أحاديث الناس إذا جرب ذلك عليه وان كان لا يتهم أن يكذب على رسول الله صلى الله عليه وسلم .

- 3
ولا من صاحب هوى يدعوا الناس إلى هواه .

- 4
ولا من شيخ له فضل وعبادة إذا كان لا يعرف الحديث

" محمد بن اسمعیل نے ہم سے بیان  کیاکہ  ابراہیم بن المنذر نے اسے  روایت کیا کہ  معین ابن عیسیٰ نے کہا:
امام ملک کہا کرتے تھے-
علم ما سوائے ان چار لوگو ں  کے سب سے لیا جا سکتا ہے-
١.ایک بےوقوف جسکی بے وقوفی لوگوں پر عیاں ہو،اگرچے کہ  یہ شخص لوگوں میں سب سے زیادہ احادیث بیان کرتا ہو-  
٢.ایک جھوٹا جو لوگوں پر جھوٹ بولتا ہو اور لوگوں پر یہ بات عیاں ہو اگرچے کہ اسنے رسول الله صلی الله علیہ وسلم پر جھوٹ نہیں بولا ہو تب بھی –
٣.ایک ایک شخص جو اپنی نفس کی پیروی کرتا ہو اور لوگو کو اس طرف بلاتا ہو-
٤.ایک ایسا شیخ  جو عابد اور نیک ہو لیکن اسکے پاس علم نہ ہو-


6). ) حجت،اہمیت و فضائل علماء  (مختصراً) ۔

اس  بات میں کوئی شک نہیں کہ ایک طالب علم  اپنا علم ایک شیخ سے حاصل کرے گا جو اسے صحیح راستہ بتائے گا- بے شک علماء    رہنمائی کے مینار ہیں جو لوگوں کو الله کی کتاب اور سنت رسول صلی الله علیہ وسلم  کی سمجھنے میں مدد کرتے ہیں- سلف نے تو اس حد تک خود کتابوں سے علم حاصل کرنے سے روکا  ہے کہ ان میں سے ایک نے کہا:
" جو کوئی کتاب کو اپنا استاد بنا لیتا ہے اسکی غلطیاں اسکے  راستبازی سے زیادہ ہوں گی-



ابن برجس:
اے طالب علم! اگر تم علم کی بنیادوں کو کو جاننا اور حاصل کرنا چاہتے ہو تو  عظیم علماء کی صحبت اختیار کرو: وہ علماء جنکی داڑھیاں سفید اور جسم کمزور ہیں  اور جو علم کے حصول میں اپنا طاقت کھو بھیٹے ہیں- انکی صحبت اختیار کرو اس سے پہلے کہ وہ چل بسے، اور انکے علم کے خزانوں سے مستفید ہو اس سے پہلے کہ وو آپنے ساتھ یہ خزانے لے چلے-
[الاوائق ، صفحہ ٢٦]

علم الحدیث کو کسنے شروع کیا ور اسے کسنے پروان  چڑھایا ؟ ایک ایسا علم اور مطالعہ جو صرف اسلام کی خاصیت ہے- دنیا کے کسی اور مذہب میں اس جیسا کوئی  طریقہ کار نہیں جو روایت کو جانچ سکے اور اور اسکی حفاظت کر سکے- اگر اصول الحدیث کو دنیا کے کسی بھی مذہب  پر لاگو کیا جائے تو وہ  فوراّ فنا ہو جاینگے-

ابو العالیہ  (المتوفی:قبل ١٠٠ ہ):
عن أبي العالية (متوفى قبل المائة): «كنا نسمع الرواية بالبصرة عن أصحابرسول الله – صلى الله عليه وسلم – فلا نرضى حتى نركب إلى المدينة فنسمعها
من أفواههم

" ہم بصرہ میں صحابہ رسول صلی الله وسلم سے منسوب روایات سنتے تھے، لیکن ہم انھیں نہیں لیتے تب تک جب ہم مدینہ آ کر انسے خود نہ سن لیتے-"



نوٹ:
آج کے زمانے میں ہم تھوڑا  سفر طے کرنے کے بعد کہتے ہیں کہ ہم تھک گئے، لیکن آپ تصور کریں انکا کو ہزار سال پہلے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے احادیث کے لئے  ہزارروں میل راستہ طے کرتے- یہ انہی لوگوں کی کاوشیں تھیں کہ آج یہ علم کا ایک بڑا ذخیرہ ہمارے ہاتھوں میں ہے- سبحان الله، الله ان سب  (علماء اور طالب علموں) سے راضی ہو-

اہل سنت میں سب سے پہلے "اسماء الرجال"  پر کام امیر المومنین   شعبة بنالحجاج (المتوفی ١٦٠ ھ) نے عراق میں شروع  کیا تھا-
علم الحدیث اتنی اہمیت کا حا مل تھا اور سلف نے اس علم کی ترویج کی کہ عبداللہ ابن مبارک (المتوفی ١٨١ ھ) نے فرمایا:
" اسناد دین کا حصہ ہیں، اسکے  بغیر جو کوئی چاہے کچھ بھی کہہ دے-"
اور 200 سال کے اندھر ہی مسلمانوں نے اسناد کے علم کو اسکے عروج تک پہنچایا-

یہ ایک نقطہ نظر ہے- اصول الفقه  کے بارے میں کیا خیال ہے ؟ کہ لوگوں کہ رہمنائی انکے حالت کے مطابق کرو-  چھوٹے بدعت سے لے کر بڑے بدعت کے خلاف جنگ کے بارے میں کیا خیال ہے؟  کفر اور دوسری گمراہیوں کی تردید کے بارے میں کیا خیال ہے؟ علم کو ہزاروں سال سے آج تک پہنچانے کے بارے میں کیا خیال ہے؟  ان اصولوں کے تحفظ کے بارے میں کیا خیال ہے جسکا  متن ہمارے پاس نہیں لیکن ان پر علماء کا اجماع موجود ہے؟  قرآن کی کی تلاوت اور تجوید کے تحفظ کے بارے میں کیا خیال ہے؟ اور اسی طرح یہ لسٹ کافی لمبی ہے –
کیا ہم محض ان علماء کا شکریہ ادا  نہیں کر سکتے ہیں جس طرح انکا حق ہے؟ نہیں بلکہ ہم تو  انھیں ہر وقت   نیچا  دکھانے کی کوشش کرتے ہیں اور یہ ظاہر کرتے ہیں کہ انسے زیا با علم تو ہم  ہیں- الله ہم پر رحم کرے-


6.1) علی بن ابی طالب رضی الله عنہ کے قول کی روشنی میں علماء کی اہمیت اور ذمہ داری -
علی بن ابی طالب  رضی الله عنہ کا قول ہے:
" کیا میں تمہیں بتاؤں کہ حقیقی فقیه کون ہے؟  یہ وہ شخص ہے جو لوگوں کو الله کے رحم سے مایوس نہ کرے، لیکن اسکے باوجود بھی وہ لوگوں کو الله کی نافرمانی میں رعایت نہیں دیتا- وہ لوگوں  کو الله کی منصوبہ بندی سے حفاظت کا احساس نہیں دلاتا اور وہ قرآن کا راستہ کبھی نہیں چھوڑتا-
[العجوری کی اخلاق العلماء # ٤٥، الخطیب کی الفقیح  والمتفقیہ  ٣٣٨-٣٣٩/٢]


6.2) علماء  کا خود یہ کہنا کہ  میں نہیں جانتا۔
ابو بکر رضی الله عنہ  کا فرمان ہے:
کونسا آسمان مجھے پناہ دیگا اور کونسی زمین مجھے اپنے اوپر رہنے دیگی اگر میں الله کی کتاب کے بارے میں ایسا بولوں جسکا مجھے علم نہ ہو؟
[ابن ماجہ کتاب الزکات # ١٧٩١؛ ابن قیم کی للعم الموقعین، یہ روایت مقطوع ہے لیکن مختلف اطراف سے اس کو تقویت ملتی ہے جسکا ذکر ہم یہاں کریں گے-]

الشیبانی سے روایت ہے:
" میں نے عبد الله  بن ابو عوفہ سے پوچھا:
کیا الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم نے رجم کی سزا دی؟ انھوں نے کہا : ہاں.
میں نے پوچھا سورہٴ نور کے نازل ہونے سے پہلے ؟ انھوں نے کہا:  میں نہیں جانتا-

ابن مسعود رضی الله عنہ فرماتے ہیں-

يا أيها الناس من علم شيئا فليقل به ومن لم يعلم فليقل الله أعلم فإن من العلم أن يقول لما لا يعلم الله أعلم

" اے لوگوں! جس کسی پاس کسی چیز کے بارے میں  کچھ علم ہو تو اسے آگے پہنچاؤ، اور کسی کے پاس کسی چیز کے بارے میں علم نہیں تو وہ کہے " واللہ علم "- کیونکہ اگر کسی چیز کا علم نہ ہو اور کوئی کہے کہ مجھے علم نہیں (واللہ علم) تو یہ علم کی نشانی ہے-
[صحیح بخاری:٤٤٣٥ اور صحیح مسلم ٥٠٠٧]


عبدللہ ابن عمر رضی الله نے فرمایا:

حدثنا طاهر بن عصام كان طاهرا وكان ثقة عن مالك بن أنس عن نافع عن ابن عمر أنه قال العلم ثلاثة كتاب الله الناطق وسنة ماضية ولا أدري

" علم کے تین اقسام ہیں: قرآن، صحیح سنت اور مجھے علم نہیں-
[ابن حزم الاحکام: ٣:٨٠٧- ابن حجر تہذیب التھزیب ٦:١٥٩- الدارقطنی غرائب مالک- الخطیب بغدادی: اسماء من روا ابو داود. کتاب الفرائض، جلد ٣، صفحہ ١٦٤. ابن ماجہ کے مقدمے میں، باب # ٨]


امام مالک رحم الله نے فرمایا:
" ایک عالم کی ڈھال "مجھے نہیں معلوم" ہے، اگر وہ اسے چھوڑتا ہے تو وار کرنے والا اس پر حملہ آور ہو جاتا ہے-
[یوسف ابن عبدالبر کی کتاب الانتقا فی فضائل ثلاثہ الفقہا]


وَحَدَّثَنِي أَبُو بَكْرِ بْنُ النَّضْرِ بْنِ أَبِي النَّضْرِ، قَالَحَدَّثَنِي أَبُو النَّضْرِ، هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ حَدَّثَنَا أَبُوعَقِيلٍ، صَاحِبُ بُهَيَّةَ قَالَ كُنْتُ جَالِسًا عِنْدَ الْقَاسِمِ بْنِعُبَيْدِ اللَّهِ وَيَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ فَقَالَ يَحْيَى لِلْقَاسِمِ يَاأَبَا مُحَمَّدٍ إِنَّهُ قَبِيحٌ عَلَى مِثْلِكَ عَظِيمٌ أَنْ تُسْأَلَعَنْ شَىْءٍ مِنْ أَمْرِ هَذَا الدِّينِ فَلاَ يُوجَدَ عِنْدَكَ مِنْهُعِلْمٌ وَلاَ فَرَجٌ - أَوْ عِلْمٌ وَلاَ مَخْرَجٌ - فَقَالَ لَهُالْقَاسِمُ وَعَمَّ ذَاكَ قَالَ لأَنَّكَ ابْنُ إِمَامَىْ هُدًى ابْنُأَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ ‏.‏ قَالَ يَقُولُ لَهُ الْقَاسِمُ أَقْبَحُ مِنْذَاكَ عِنْدَ مَنْ عَقَلَ عَنِ اللَّهِ أَنْ أَقُولَ بِغَيْرِ عِلْمٍ أَوْآخُذَ عَنْ غَيْرِ ثِقَةٍ ‏.‏ قَالَ فَسَكَتَ فَمَا أَجَابَهُ ‏.

ابو بکر بن النظر  بن ابی نظر نے مجھے روایت کیا، اسنے کہا ابو النظر ہاشم بن القاسم نے مجھے روایت کیا، ابو عقل جو رفیق ہے بُهَيَّةَ  کا، نے ہم سے روایت کیا، اسنے کہا:
" میں قاسم بن عبیداللہ  اور یحییٰ بن سعد (بن قیس المدنی القاضی) کے پاس بھیٹا ہوا تھا، تو یحییٰ نے القاسم سے کہا: " او ابو محمد! بے شک یہ بہت عجیب بات ہے کہ آپ سے مذہب کے معاملات کے بارے میں سوال کیا جائے اور آپ کے پاس جواب نہ ہو".
 القاسم نے پوچھا: "کیوں؟"  

یحییٰ  نے کہا : " کیونکہ آپ علم کے دو  اماموں (ابو بکر و عمر) کی اولاد میں سے ہیں-
القاسم نے کہا: اس سے بری بات کیا ہوگی کہ ایک انسان کو الله نے دانائی دی ہو اور وہ بغیر علم کے بات کرے یا  قابل اعتبار لوگوں کے علاوہ کسی اور سے علم لے"
-پھر یحییٰ چپ رہے  اور کوئی جواب نہیں دیا-
[امام مسلم-مقدمہ صحیح مسلم ٣٣]

6.3) علما کرام کی فضیلت اور عام آدمی (جاہل) پر برتری ۔
عمر بن الخطاب رضی الله عنہ:
"  ان ایک ہزار عبادت گزاروں کی موت کا غم برداشت کرنا آسان ہےجو دن میں روزے رکھتے ہیں اور رات میں قیام کرتے ہیں بنسبت اس ایک عالم کے موت کے جو حرام اور حلال کا فرق سمجھتا ہو-"
[جامع البیان العلم ؤ فضلہ ، جلد ١.صفحہ ٦٥]

امام ابن القیم نے فرمایا:
فرض کرو ایک ایسا شخص ہے جسکے پاس دنیا بھر کی دولت ہو اور وہ بڑا سخی بھی ہو اور وہ ہزاروں لوگوں کی مدد بھی کرتا ہو اور انکے حاجات بھی پورا کرتا ہو- پھر وھ مر جاتا ہے  اور اسکی  رسائی اب اپنے دولت تک نہیں ہو- پس  ایک عالم کی موت  بنسبت اس مالدار شخص کے موت کے بہت بڑا سانحہ ہے"-
[مفتاح  دار السعدہ: ١/٢٦٥]



امام عبدالله بن مبارک رحم الله سے پوچھا گیا:
"بہترین لوگ کون ہیں؟"
 انھوں نے جواب دیا "  علماء"-
 ان سے پوچھا گیا  کہ حقیقی بادشاہ کون ہیں؟
انھوں نے جواب دیا  " سادہ  ؤ درویش لوگ"-
ان سے پوچھا گیا "بے کار  لوگ کون ہیں؟"
انھوں نے جواب دیا" وہ لوگ جو دین کو دولت کا ذریعہ بناتے ہیں"-
ان سے پوچھا گیا، "  بھیڑ/ہجوم کون ہیں؟"
انھوں نے جواب دیا، " خزیمہ بن خازم  اور اسکے اصحاب".
اور انسے پوچھا گیا، " کم ضرف شخص کون ہے؟"
انھوں نے جواب دیا، "جو اپنے مہمان کو قیمتوں کے چڑھاؤ کا ذکر کرتا ہے"-
[ابو  بکر الدینوری ، المجلاصه  ؤ جواہر ال-علم  ٢:١٨١ ]

الزہری :
 ایک سنت کا درس دینا دو سو سالوں کے  نفلی عبادت سے بہتر ہے-
[احمد بن حنبل، اصول السنہ، باب 6 : اہل سنہ کے امتیازی نشانیاں]




ابو ہریرہ رضی الله عنہ:
" مجھے یہ بہت محبوب ہے کہ تھوڑی دیر  کے لئے اپنے دین کو سمجھنے کے لئے بیٹھوں  بجائے اسکے  کہ میں پوری رات  صبح ہونے تک عبادت کروں-"
[جامع البیان العلم ؤ فضائل جلد ١ صفحہ ٦٠]

امام ترمذ ی نے  اپنے کتاب  جامع ترمذ ی  میں ایک باب  " فقہ کی عبادت پر برتری  کے بارے میں" قائم کیا ہے- اس باب میں ایک حدیث کچھ اسطرح ہے:
قیس بن کثیر سے روایت ہے:
" مدینہ سے ایک شخص ابو دردہ  کے پاس آیا جب وہ   دمشق میں تھے- تو انھوں  نے پوچھا:
" وہ میرے بھانجے کیا بات تمھیں یہاں لائی ہے؟"
 اسنے جواب دیا:
" ایک حدیث مجھ تک پہنچی ہے جسے آپ نے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے."
 آپ  رضی الله نے کہا :
" تو تم ادھر اپنے کسی ضرورت کی وجہ سے نہیں آئے  ہو؟
اس نے جواب دیا:
"نہیں"-
 آپ نے پوچھا:
" کیا تم ادھر تجارت کے لئے آئے ہو؟-
 اسنے  کہا : " نہیں، میں صرف اس حدیث کی جانکاری کے لئے یہاں آیا ہوں"-
  تو  آپ رضی الله عنہ نے فرمایا :
 بے شک میں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم  کو کہتے ہوئے سنا کہ:

مَنْ سَلَكَ طَرِيقًا يَبْتَغِيفِيهِ عِلْمًا سَلَكَ اللَّهُ بِهِطَرِيقًا إِلَى الْجَنَّةِ وَإِنَّالْمَلاَئِكَةَ لَتَضَعُ أَجْنِحَتَهَارِضًا لِطَالِبِ الْعِلْمِ وَإِنَّالْعَالِمَ لَيَسْتَغْفِرُ لَهُ مَنْفِي السَّمَوَاتِ وَمَنْ فِي الأَرْضِحَتَّى الْحِيتَانُ فِي الْمَاءِوَفَضْلُ الْعَالِمِ عَلَى الْعَابِدِكَفَضْلِ الْقَمَرِ عَلَى سَائِرِالْكَوَاكِبِ إِنَّ الْعُلَمَاءَوَرَثَةُ الأَنْبِيَاءِ إِنَّالأَنْبِيَاءَ لَمْ يُوَرِّثُوا دِينَارًاوَلاَ دِرْهَمًا إِنَّمَاوَرَّثُوا الْعِلْمَ فَمَنْ أَخَذَ بِهِ أَخَذَبِحَظٍّ وَافِرٍ

" اگر کوئی شخص علم کا راستہ اختیار کرے گا تو الله اس کے لئے جنت کا راستہ آسان کر دے گا اور فرشتے طالب علم کی رضا کے لئے (اسکے پاؤں کے نیچے) اپنے پر بچھاتے ہیں – عالم کے لئے آسماں ؤ زمین میں موجود ہر چیز مغفرت طلب کرتی ہے- یہاں تک کہ مچھلیاں پانی میں اس کے لئے استغفار کرتی ہیں- پھر عالم کی آباد پر اسطرح فضیلت ہے جیسے چند کی فضیلت ستاروں پر- علماء انبیاء کے وارث ہیں  اور بےشک انبیاء کی وراثت درہم ؤ دینار نہیں ہوتے بلکہ انکی میراث علم ہے- پس جسنے اسے حاصل کیا اسنے انبیاء کی وراثت سے بہت سارا حصہ حاصل کر لیا-
[جامع ترمذی :٢٦٨٢،  اس روایت کی طرح اور بھی روایت ہیں اور انکی متن پر علماء کا اتفاق ہے]

امام العینی  رحم الله   صحیح بخاری کی شرح عمدة القاري   (٢.٣٩)میں  لکھتے ہیں- اس  حدیث  (علماء انبیاء کے وارث ہیں  ) کی دلیل قرآن کی اس آیت میں ہے  جہاں الله نے فرمایا:
پھر ہم نے ان لوگوں کو (اس) کتاب کا وارث بنایا جن کو ہم نے اپنے بندوں میں سے پسند فرمایا۔ [سورہ فاطر :٣٢ ]

علماء  کی سب سے پہلی جماعت صحابہ رسول  صلی الله علیہ وسلم تھے، اور پھر انکے بعد تابعین پھر انکے بعد طبع تابعین اور یہ سلسلہ اسطرح چلتا گیا"-

نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم  نے فرمایا:

مَثَلُ الْمُدْهِنِ فِي حُدُودِاللَّهِ وَالْوَاقِعِ فِيهَا مَثَلُقَوْمٍ اسْتَهَمُوا سَفِينَةً،فَصَارَ بَعْضُهُمْ فِي أَسْفَلِهَاوَصَارَ بَعْضُهُمْ فِي أَعْلاَهَا،فَكَانَ الَّذِي فِي أَسْفَلِهَايَمُرُّونَ بِالْمَاءِ عَلَى الَّذِينَفِي أَعْلاَهَا، فَتَأَذَّوْابِهِ، فَأَخَذَ فَأْسًا، فَجَعَلَ يَنْقُرُأَسْفَلَ السَّفِينَةِ،فَأَتَوْهُ فَقَالُوا مَا لَكَ قَالَ تَأَذَّيْتُمْبِي، وَلاَ بُدَّ لِيمِنَ الْمَاءِ، فَإِنْ أَخَذُوا عَلَى يَدَيْهِأَنْجَوْهُ وَنَجَّوْاأَنْفُسَهُمْ، وَإِنْ تَرَكُوهُ أَهْلَكُوهُوَأَهْلَكُوا أَنْفُسَهُمْ

" اللہ کی حدود میں سستی برتنے والے( عام طور پر ایک جاہل یا عامی) اور اس میں مبتلا (یعنی الله کی حددو کی پابندی کرنے والے یا علماء)  ہو جانے والے کی مثال ایک ایسی قوم کی سی ہے جس نے ایک کشتی ( پر سفر کرنے کے لیے جگہ کے بارے میں ) قرعہ اندازی کی ۔ پھر نتیجے میں کچھ لوگ نیچے سوار ہوئے اور کچھ اوپر ۔ نیچے کے لوگ پانی لے کر اوپر کی منزل سے گزرتے تھے اور اس سے اوپر والوں کو تکلیف ہوتی تھی ۔ اس خیال سے نیچے والا ایک آدمی کلہاڑی سے کشتی کا نیچے کا حصہ کاٹنے لگا ( تاکہ نیچے ہی سمندر سے پانی لے لیا کرے ) اب اوپر والے(یعنی علماء) آئے اور کہنے لگے کہ یہ کیا کر رہے ہو ؟ اس نے کہا کہ تم لوگوں کو ( میرے اوپر آنے جانے سے ) تکلیف ہوتی تھی اور میرے لیے بھی پانی ضروری تھا ۔ اب اگر انہوں نے نیچے والے(یعنی عام آدمی) کا ہاتھ پکڑ لیا تو انہیں بھی نجات دی اور خود بھی نجات پائی ۔ لیکن اگر اسے یوں ہی چھوڑ دیا تو انہیں بھی ہلاک کیا اور خود بھی ہلاک ہو گئے ۔"
[صحیح البخاری ٢٦٨٦ ]




ابو امامہ بھلی رضی الله عنہم فرماتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے سامنے دو آدمیوں کا تذکرہ کیا گیا جن میں سے ایک عابد تھا اور دوسرا عالم- آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا

فَضْلُ الْعَالِمِ عَلَى الْعَابِدِ كَفَضْلِي عَلَى أَدْنَاكُمْ ‏"‏ ‏.‏ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ إِنَّ اللَّهَوَمَلاَئِكَتَهُ وَأَهْلَ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ حَتَّى النَّمْلَةَ فِيجُحْرِهَا وَحَتَّى الْحُوتَ لَيُصَلُّونَ عَلَى مُعَلِّمِ النَّاسِالْخَيْرَ ‏"‏ ‏.‏ قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌغَرِيبٌ ‏.‏ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عَمَّارٍ الْحُسَيْنَ بْنَ حُرَيْثٍالْخُزَاعِيَّ يَقُولُ سَمِعْتُ الْفُضَيْلَ بْنَ عِيَاضٍ يَقُولُ عَالِمٌعَامِلٌ مُعَلِّمٌ يُدْعَى كَبِيرًا فِي مَلَكُوتِ السَّمَوَاتِ ‏.

عالم کی فضیلت عابد پر اسطرح ہے  جسطرح میری تمہاری ادنی ترین آدمی پر- پھر فرمایا کہ یقیناّ  الله، فرشتے اور تمام اہل زمین ؤ آسماں یہاں تک کہ چیونٹی اپنے سوراخ میں اور مچھلیاں بھی، اس شخص کی لئے دعائے خیر کرتے ہیں اور رحمت بھیجتے ہیں جو لوگوں کو بھلائی کی باتیں سکھاتا ہے-
[جامع ترمذی :٢٦٨٥]






رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:

إِنَّ اللَّهَ لاَ يَقْبِضُ الْعِلْمَ انْتِزَاعًا يَنْتَزِعُهُ مِنَالنَّاسِ وَلَكِنْ يَقْبِضُ الْعِلْمَ بِقَبْضِ الْعُلَمَاءِ فَإِذَا لَمْيُبْقِ عَالِمًا اتَّخَذَ النَّاسُ رُءُوسًا جُهَّالاً فَسُئِلُوافَأَفْتَوْا بِغَيْرِ عِلْمٍ فَضَلُّوا وَأَضَلُّوا ‏"

اللہ علم کو اس طرح نہیں اٹھا لے گا کہ اس کو بندوں سے چھین لے ۔ بلکہ وہ ( پختہ کار ) علماء کو موت دے کر علم کو اٹھائے گا ۔ حتیٰ کہ جب کوئی عالم باقی نہیں رہے گا تو لوگ جاہلوں کو سردار بنا لیں گے ، ان سے سوالات کیے جائیں گے اور وہ بغیر علم کے جواب دیں گے ۔ اس لیے خود بھی گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے ۔
[صحیح بخاری:١٠٠، سنان ابن ماجہ، جلد ١، حدیث ٥٢]

  
عوف بن مالک السجعی رضی الله عنہ  سے روایت  ہے :
رسول الله صلی الله علیہ وسلم  نے ایک دفعہ آسمان کی طرف دیکھا اور  فرمایا: " لگتا ہے یہ علم کے اٹھائے جانے کا وقت ہے "، پس ان میں سے ایک نے کہا : " یا رسول الله ، علم کسطرح اٹھایا جا سکتا ہے جبکہ ہمارے پاس کتاب الله ہے ، ہم اسے پڑھتے ہیں، اسکا مطالعہ کرتے ہیں اور  اسے اپنے بچوں کو سکھاتے ہیں"- تو   رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:
" میں تمھیں مدینہ کے لوگوں میں سب زیادہ علم والا سمجھتا  تھا، کیا یہود اور نصاریٰ  کی پاس اپنی کتابیں نہیں تھی؟
[إقتضاء العلم العمل،الخطیب البغدادی بمع تحقیق شیخ البانی ، جنہوں نے اسے صحیح کہا، صفحہ ٥٨]



رسول الله صلی الله وسلم نے فرمایا: " کیا میں تمھیں نہ بتاؤں کے علم میں سب سے پہلے کیا اٹھایا جائیگا ؟ آپنے فرمایا :' خشوع اور الله کا خوف، یہاں تک کہ آنے والے وقت میں تم کسی میں بھی عاجزی اور الله کا خوف نہیں دیکھو گے-

انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:
" بے شک زمین پر علماء کی مثال بالکل اسس طرح ہے جیسے آسماں میں ستاروں کی. انکے زریعے ایک انسان کو زمین ؤ سمندر کے اندھیروں میں روشنی ملتی ہے-
[مسند احمد بن حنبل،جلد ٣، حدیث # ١٢٦٢١. شیخ البانی نے اس حدیث  کو ضعیف الجامع # ١٩٧٣ میں ضعیف کہا ہے]


آدب حاتم رضی الله نے فرمایا:
" تم بہتری میں رہو گے جب تک تم اس چیز کی اجازت نہیں دو گے جکسو تم برا جانتے تھے یا اس چیز کی مذمت نہیں کرو گے جسے تم اچھا جانتے تھے، اور جب تک اہل علم تمہارے بیچ نڈر ہوکر بولے ( حاکم وقت اور لوگوں کے خوف سے)-
[ابنے بطاح، الابانہ  الکبریٰ ، مضمون ٢٦]


عبد الله ابن مسعود رضی الله عنہ نے فرمایا:

عَنْ سَعِيدِ بْنِ وَهْبٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ لَا يَزَالُ النَّاسُ بِخَيْرٍ مَا أَخَذُوا الْعِلْمَ عَنْ أَكَابِرِهِمْ وَعَنْ أُمَنَائِهِمْ وَعُلَمَائِهِمْ فَإِذَا أَخَذُوا مِنْ صِغَارِهِمْ وَشِرَارِهِمْ هَلَكُوا
8 نصيحة أهل الحديث للخطيب البغدادي لا يزال الناس بخير ما أخذوا العلم

" لوگ ہمیشہ اچھائی پر رہیں گے جب تک  وہ علم لے اپنے بڑھوں سے، قابل اعتماد اور ثقہ لوگوں سے اور علماء سے- اگر لوگ اپنے نوجوانوں اور برے ؤ خیانت دار لوگوں سے علم لیں گے تو پھر وہ تباہ ہو جاینگے-
[ ابن منده, مسند ابراہیم بن آدم ، صفحہ ٣٤ اور نصیحه الخطیب البغدادی ٨، صحیح الالبانی ]


6.4)) باطل کی تردید اور حق کے قیام میں علماء کرام کے کردار۔

ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:

يحمل هذا العلم من كل خلف عدوله ينفون عنه تحريف الغالين وانتحال المبطلين وتأويل الجاهلين

اس  علم  کو  ہر دور کے قابل اعتمادلوگوں اگے لے کر جائینگے – یہ لوگ اس علم سے وہ تمام تر تحریفات جو ان لوگوں نے کی جو اپنا حد پار کر گئے؛   ؛ یعنی کذابوں کے جھوٹ اور  جاہل لوگوں کے غلط  تشریحات  کو خارج کر دینگے-
[ صحیح- سنن الکبریٰ بیہقی (١٠/٢٠٩)، ابن ابی حاتم  الجرح ؤ تعدیل (٢/١٧) ،  اور التمہید ابن عبدالبر (١/٥٧-٥٨)  نے ابراہیم بن عبد الرحمان ال ادھری رضی الله عنہ کی حدیث سے بیان کیا- امام احمد نے اسے صحیح کہا ( دیکھئے : تاریخ دمشق 7/٣٩) اور  شرف اصحاب الحدیث الخطیب بغدادی  (صفحہ ٢٩). صحیح  بحوالہ سلسلہ صحیحہ ٢٢٧ .]


زبیر بن عدی رحم الله  نے فرمایا:
ہم انس بن مالک رضی الله عنہ کے پاس گئے اور انسے حجاج کے شر  /برائیوں  کی فریاد کی- پس  انہوں (انس) نے کہا:
" کوئی ایسا سال نہیں ہوگا جو کہ پچھلے والے سال سے بد تر نہ ہو یہاں تک کہ تم اپنے پروردگار سے جا ملو- اور میں نے یہ آپ کے رسول  صلی الله علیہ وسلم سے سنا "-

ابن مسعود رضی الله عنہ نے اسکو اسطرح سمجھا:
 قیامت کے دن تک ہر آنے والا دن گزرنے والے دن سے بد تر ہوگا- اس  سے   میرا مطلب دولت کی فراوانی یا  بے کار معاملات نہیں ہیں- بلکہ اس سے میری مراد   وقت کے ساتھ ساتھ علم کی کمی ہے یہاں تک کہ  علماء کے فوت ہونے سے لوگ ( علم کے لحاظ سے ) برابر ہو جاینگے- نتیجا  وہ نہ پھر اچھائی کی طرف بلائینگے نہ  برائی سے روکیں گے اور یہی انکی تباہی کا سبب بنے گا-
[سنن دارمی (١٩٤)؛ یعقوب بن سفیان نے المروہ میں؛ نسائی (٣/٣٩٣)، الخطیب نے فقیہ والمتفقیہ  میں (١/٤٥٦)؛ فتح الباری (١٣/٢٦)-]


ایک چھوٹی لیکن  زبردست مثال "صحابی "کی تعریف ہے-  شیعہ اور غیر مسلم بھی روایت لے کر آتے ہیں دعوی کرتے ہیں کہ   کسطرح  فلاں صحابی رسول صلی الله علیہ وسلم  سے ملاقات کے بعد مرتد ہو گیا تھا- بے شک یہ غلط بیانی ہے جسکا حقیقت سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں- اگر ہم جائزہ لیں تو یہ بات عیاں ہو جاتی ہیں کہ ہر وہ شخص صحابی نہیں کہلاتا جسنے رسول صلی الله علیہ وسلم سے صرف ملاقات یا بات چیت کی  ہو- اگر اسی طرح ہوتا تو پھر تو ابو جہل بھی صحابی ہوتا- الله کے کرم سے علماء ہما ری حفاظت کے لئے موجود تھے اور انہوں نے نے صحابہ کے تعریف ان الفاظ میں کی-
" جو شخص  نے بھی رسول الله  صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ ملاقات کے ہو، ان پر ایمان لیا ہو اور اسکا خاتمہ بھی اسلام پر ہی ہوا ہو (وہ صحابی کہلاۓ گا)".
[ابن حجر عسقلانی الاصابہ  ١/7 ، ڈر ال معرفہ ، ٢٠٠٤،  پہلا ایڈیشن ]

جیسا کہ ہم نے دیکھا کے صحابی  کے تین  شرائط کا پورا ہونا لازمی ہے اور اسی پر اہل سنت کا اجماع ہے- ایک عامی اسکو کسطرح سمجھے گا؟ کیا ایک عامی اس قابل ہے کہ وہ قرآن ؤ سنت سے خود اپنے فہم سے مسائل کے حل  تک پہنچ سکے؟ کیا ایک عامی کے پاس اتنا علم ہے؟ کیا ہم کچھ آرٹیکلز ، پی ڈی ایف  کتابیں،کچھ آڈیو ویڈیو لیکچرز سن کر اپنے آپ کو علماء کے مد مقابل سمجھتے ہیں؟ کیا ہم یہ بھول گئے ہیں کہ جو آرٹیکلز، پی ڈی ایف ، آڈیو اور ویڈیو لیکچرز جو ہم پڑھتے اور سنتے ہیں وہ بھی علماء کے ہی ہیں-

الحسن البصری رحمہ  الله نے فرمایا:
" اگر علماء نہیں ہوتے تو لوگ جانوروں کی طرح   برتاؤ کرتے"-
[التبصرہ ابن جوزی (٢/١٩٣)].

شیخ ربی ابن حدی حفظ الله  نے فرمایا؛
" اس ضمن میں سلف سے مروی ہے کہ ایک بدعتی اسلام کے لئے یہود ؤ نصاریٰ سے زیادہ نقصان دہ ہے- یہی کچھ عالم اسلام کے اکابر علماء نے بھی کہا:
ابن عقیل  اور  انکے استاد  ابو الفضل الحمدانی، ابن جوزی، ابن تیمیہ – الشوکانی نے اپنے تفسیر میں نقل کیا ہے کہ
" بیشک ایک بدعتی اسلام کے لئے یہود ؤ نصاری اور  کافر سے زیادہ نقصان دہ ہے-"

ایسا کیوں ہے؟ کیونکے  بہت سے لوگ ان پر بھروسہ کرتے ہیں  اور اسی لئے انکے جھوٹ کو تسلیم کر لیتے ہیں، لیکن وہ یہود ؤ نصاریٰ  اور کافروں کو قابل بھروسہ نہیں سمجھتے اور انسے رہنمائی نہیں لیتے اسی وجہ سے ایک  بدعتی یہود ؤ  نصاریٰ  اور کافر سے زیادہ مضر ہوتا ہے-
[ترجمہ ابو الحسن مالک آدم الاخدار]

امام اؤذاعی فرماتے ہیں؛
" جب بدعات عام ہو جاتے ہیں ( جیسا کہ شب میراج  اوراسکے جھوٹے فضائل) اور  اہل علم اس پر خاموش  رہتے ہیں اور انکی تردید نہیں کرتے تو وہ ایک سنت بن جاتی ہے-"
[تہدھیب شرف اصحابالحدیث الخطیب بغدادی صفحہ ٤٦]


عبد الله ابن مسعود سے روایت ہے کہ  رسول الله صلی الله علیہ وسلم  نے فرمایا:
" ما من نبي بعثه الله في أمة قبلي إلا كانله من أمته حواريون وأصحاب يأخذون بسنته ويقتدون بأمره، ثم إنها تختلف منبعدهم خلوف يقولونمالا يفعلون ويفعلون ما لا يؤمرون، فمن جاهدهم بيده فهومؤمن، ومن جاهدهم بقلبه فهو مؤمن، ومن جاهدهم بلسانه فهو مؤمن ، وليس وراءذلك الإيمان حبة خردل "
اللہ تعالیٰ نے مجھ سے پہلے کوئی نبی ایسا نہیں بھیجا کہ جس کے ، اس کی امت میں سے حواری اور اصحاب نہ ہوں جو اس کے طریقے پر چلتے تھے اور اس کے حکم کی پیروی کرتے تھے۔ پھر ان لوگوں کے بعد ایسے نالائق لوگ پیدا  ہوتے ہیں جو زبان سے کہتے ہیں اور کرتے نہیں  اور ان کاموں کو کرتے ہیں جن کا حکم نہیں دیا  جاتا۔ پھر جو کوئی ان نالائقوں کے ساتھ  ہاتھ سے لڑے وہ مومن اور جو کوئی زبان سے لڑے (ان کو بُرا کہے اور ان کی باتوں کا  رد کرے) وہ بھی مومن ہے اور جو کوئی ان سے دل سے لڑے (دل میں ان کو بُرا جانے) وہ  بھی مومن ہے اور اس کے بعد دانے برابر بھی ایمان نہیں۔ (یعنی اگر دل سے بھی بُرا نہ  جانے تو اس میں ذرہ برابر بھی ایمان نہیں)۔
[صحیح مسلم، کتاب ١ ،حدیث نمبر ٨١]

 اس حدیث کو عملاً  لاگو کرنے کی مثال:

طارق ابن شہاب نے کہا:
کہ سب سے پہلے جس نے عید کے دن نماز سے پہلے خطبہ شروع کیا وہ مروان تھا (حکم کا بیٹا جو خلفاء بنی امیہ میں سے پہلا خلیفہ ہے) اس  وقت ایک شخص کھڑا ہوا اور کہنے لگا کہ نماز خطبہ سے پہلے ہے۔ مروان نے کہا کہ یہ بات موقوف کر دی گئی۔ سیدنا ابو سعید ص نے کہاکہ اس شخص نے تو اپنا فرض ادا کر دیا،  میں نے رسول اللہ  سے سنا آپ ]نے فرمایا :

مَنْرَأَى مِنْكُمْ مُنْكَرًا فَلْيُغَيِّرْهُ بِيَدِهِ، فَإِنْ لَمْيَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِهِ، فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِهِ، وَذَلِكَأَضْعَفُ الْإِيمَانِ"

کہ جو شخص تم میں سے کسی منکر (خلافِ شرع
) کام کو دیکھے تو اس کو اپنے ہاتھ سے مٹا دے، اگر اتنی طاقت نہ ہو تو زبان سے اور
اگر اتنی بھی طاقت نہ ہو تو دل ہی سے سہی۔ (دل میں اس کو بُرا جانے اور اس سے بیزار ہو) یہ ایمان کا سب سے کم درجہ ہے۔
[صحیح مسلم ٤٩]

شیخ السلام ابن تیمیہ رحمہ الله نے فرمایا:
امام احمد بن حنبل سے کہا گیا: ایک ایسا شخص آپ کو محبوب ہے جو روزے رکھتا ہو، نماز پڑھتا ہو اور اعتکاف میں بھیٹتا ہو یا ایسا شخص جو اہل بدعت کے خلاف بولے؟ امام احمد نے کہا: " اگر وہ روزے رکھتا ہے، نمازیں پڑھتا ہے اور اعتکاف میں بھیٹتا ہے تو یہ سب صرف اسکے خود کے لئے ہے- لیکن جب وہ اہل بدعت کے خلاف بولتا ہے تو یہ مسلمانوں کی بھلائی کے لئے ہے اور یہی بہتر ہے"-
ابن تیمیہ آگے فرماتے ہے :
پس امام احمد نے واضح کر دیا کہ اس سے تمام مسلمانوں کے لئے انکے دین کے حوالے سے فائدہ مند ہے جسطرح الله کی راہ میں جہاد کرنا ہے-
[مجموعہ الفتاویٰ ٢٨/٢٣١-٢٣٢]

الزہری نے فرمایا:
" ایک سنّت کی درس ؤ تدریس ٢٠٠ سالوں  کی عبادت سے بہتر ہے"-
[احمد بن حنبل اصول السنہ ، باب 6 : اہل سنہ کے امتیازی نشانیاں ]


العباس بن الولید کہتے ہیں کہ عقبہ نے کہا :
ایک دفعہ میں ارطاہ بن المنذر کے ساتھ تھا کہ مجمع میں ایک سخص نے کہا:
" آپ اس شخص کے بارے میں کیا کہتے ہیں جو سنت کے پیروکاروں کے ساتھ بھیٹتا ہو اور انکی صحبت اختیار کرتا ہو، لیکن جب ان کے سامنے اہل بدعت کا ذکر ہوتا ہے تو وہ کہتا ہے ." ہمیں انکا  ذکر کرنے سے دور ہی  رکھئے انکا  ذکر ہمارے سامنے مت کیجئے"-


ارطاہ نے کہا: "وہ انہی (اہل بدعت) میں سے ہی ہے-اسکے حالت پر دھوکہ مت کھاؤ."
مجھے یہ بات بہت عجیب لگی، پس میں امام اوزاعی کے پاس گیا (اکابر تبع تابعین میں سے تھے)- تو انہوں نے فرمایا : " ارطاہ نے صحیح کہا، یہ معاملہ اسی طرح ہے جسطرح اسنے بیان کیا: یہ بندہ  اگر لوگوں کو اہل بدعت کے بارے میں ذکر کرنے سے روکتا ہے تو  پھر لوگ اہل بدعت سے کسطرح خبردار ہونگے اگر انکو بے نقاب نہ کیا جاۓ؟"
[تاریخ دمشق ابن عساکر جلد ٨ صفحہ ١٥]


امت کو اہل علم  کی ہر وقت  اور ہر جگہ ضرورت ہے- علماء کے بغیر لوگ برم ؤ دھوکے میں رہینگے اور انکا خاتمہ بھی تاریکی پر ہوگا- سورہٴ توبہ میں جہاں جہاد کو فرض قرار دیا گیا، تب بھی الله نے کہا کہ لوگوں کا ایک گروہ ہونا چاہئے جو پیچھے رہ جائیں اور مطالعہ اور درس ؤ تدریس کریں- قرآن نے انہیں "  لِّيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ"  کہا –
" وَمَا كَانَ الْمُؤْمِنُوْنَ لِيَنْفِرُوْا كَاۗفَّةً  ۭ فَلَوْلَا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَــةٍ مِّنْھُمْ طَاۗىِٕفَةٌ لِّيَتَفَقَّهُوْا فِي الدِّيْنِ وَلِيُنْذِرُوْا قَوْمَھُمْ اِذَا رَجَعُوْٓا اِلَيْهِمْ لَعَلَّھُمْ يَحْذَرُوْنَ   .

اور مسلمانوں کو یہ نہ چاہیے کہ سب کے سب نکل کھڑے ہوں سو ایسا کیوں نہ کیا جائے کہ ان کی ہر بڑی جماعت میں سے ایک چھوٹی جماعت جایا کرے تاکہ وہ دین کی سمجھ بوجھ حاصل کریں اور تاکہ یہ لوگ اپنی قوم کو جب کہ وہ ان کے پاس آئیں، ڈرائیں تاکہ وہ ڈر جائیں [٩:١٢٢ ]


 نیچے کچھ لنکس دئے گئے ہیں انہیں ملاحظہ کیجئے اور دیکھئے کہ کسطرح علماء نے بدعت کو نفرت کی نگاہ سے دیکھا ہے اور اس سے خبردار کیا ہے- ان کے اقوال سے ہمیں انکی علم، زہد، تقوی اور حکمت کا پتا چلتا ہے-













6.5) علماء کرام کے اختیارات۔
ابن عباس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
يَدُ اللَّهِ مَعَ الْجَمَاعَةِ
" الْجَمَاعَةِ  اللہ کی حفاظت میں ہے"-
[سنن ترمذی ٢١٦٦، صحیح البانی صحیح الجامع  ٨٠٦٥]


ابن عمر رضی اللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إِنَّ اللَّهَ لَا يَجْمَعُ أُمَّتِي - أَوْ قَالَ: أُمَّةَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - عَلَى ضَلَالَةٍ، وَيَدُ اللَّهِ مَعَ الجَمَاعَةِ، وَمَنْ شَذَّ شَذَّ إِلَى النَّارِ
بے شک الله  میری امت یا آپ نے کہا : " محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت"   کو نہیں جمع کرے گی"-گمراہی پر ( اور ا الْجَمَاعَةِ  اللہ کی حفاظت میں ہے- اور جو کوئی بھی اس سے انخراف کرے گا  وہ آگ کی طرف جاۓ گا-
[سنن ترمذی ٢١٦٧، شیخ البانی سے اسے " اور جو کوئی بھی اس سے انخراف کرے گا اہ اگ کی طرف جاۓ گا-" کے علاوہ صحیح کہا-]




ارفجہ بن شریح  رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کو ممبر پر لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے دیکھا- آپ الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

" إِنَّهُ سَيَكُونُ بَعْدِي هَنَاتٌ وَهَنَاتٌ فَمَنْ رَأَيْتُمُوهُ فَارَقَ الْجَمَاعَةَ أَوْ يُرِيدُ تَفْرِيقَ أَمْرِ أُمَّةِ مُحَمَّدٍ صلى الله عليه وسلم كَائِنًا مَنْ كَانَ فَاقْتُلُوهُ فَإِنَّ يَدَ اللَّهِ عَلَى الْجَمَاعَةِ فَإِنَّ الشَّيْطَانَ مَعَ مَنْ فَارَقَ الْجَمَاعَةَ يَرْكُضُ

" میرے بعد بہت سے فتنے اور برائیاں ہونگی- اگر تم کسی کو دیکھو کہ وہ جمع سے دور جاتا ہے یا امت محمدی صلی الله علیہ وسلم  میں تفرقہ ڈالتا ہے تو اسے مار دو، کیوں کہ الْجَمَاعَةِ  الله کی حفاظت میں ہے، اور شیطان اسکے ساتھ ہے جو اپنے آپ کو امت سے جدا کرتا ہے-
[سنن نسائی ٤٠٢٠، صحیح البانی صحیح الجامع ٣٦٢١]

اس امت کی خاص خصوصیت " الْجَمَاعَةِ " میں ہی ہے- حقیقت میں یہ ایک ہی جمع ہے جو اس سے پہلے کسی اور قوم میں نہیں تھی اور یہی وجہ ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم  کو رحمت العالمین بنا کر بھیجا گیا- اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے انبیاء کو صرف اپنی قوموں کی طرف بھیجا گیا تھا- اس امت سے پہلے  ایک قوم کے  لئے مختلف ادوار میں شریعت ایک جیسی نہیں تھی بلکے وقت،جگہ اور علاقے کے ساتھ ساتھ بدلتے رہے-* جبکہ اس امت کے لئے وقت،جگہ اور علاقے سے قطع نظر شریعت شروع دن سے ہی ایک ہے- اور ا الْجَمَاعَةِ  الله کی حفاظت میں ہے- واللہ علم-یہی صحیح خلاصہ ہے-"
*.مثال: بنی اسرائیل کے لئے شریعت یعقوب علیہ سلام کے دور میں موسیٰ علیہ سلام کے دور سے مختلف تھی- عیسیٰ علیہ سلام کے دور میں یہ پھر بدلی، لیکن مسلمانوں کے لئے یہ روزے آخر تک ایک ہی رہے گی-

ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
" الله نے اپنے بندوں کے دلوں میں جھانکا تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دل کو سب سے بہترین پایا- پس اللہ نے آپ کو چنا اور اپنا رسول بنا کر بھیجا- پھر اللہ نے اپنے رسول کے بعد اپنے بندوں کے دلوں میں جھانکا اور اللہ نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ  کے دلوں کو سب سے بہتر  پایا- پس اللہ نے انہیں اپنے رسول کا مددگار بنایا تا کہ اہ اللہ کے دین کے لئے لڑ سکے- پس جس کسی چیز کو بھی مسلمان (حقیقی علماء) اچھا سمجھیں (قرآن ؤ سنت کی روشنی میں) وہ اللہ کے ہاں بھی اچھا ہے اور جس کسی چیز کو مسلمان برا سمجھیں وہ اللہ کے نزدیک بھی برا ہو گا-"
[مسند احمد:٣٤١٨، صحیح البانی التخریح الطاحاویہ،٥٣٠ (اور حسن موقوف # ٤٦٩). امام سیوطی نے اسے الاشبہ وہ نتھائر ٨-٧ میں قاضی ابو سعید سے روایت کیا جب وہ شافی مذہب کے قوائد کے بارے میں سوال کا جواب دی رہے تھے، تحفتہ الطالب ابن کثیر:٣٩، مختصر المقاصد الزرقانی ٨٨٩،
مسند أحمد،أحمد شاكر ٥/٢١١;اور کہا کہ یہ ابن مسعود سے صحیح موقوف ثابت ہے-
عمدة التفسیر من تفسیر ابن کثیر،أحمد شاكر ١/٨٢٠، اور کہا "اسناد صحیح"، شیخ مقبل الودی اسے صحیح المسند میں لائے اور اس حسن کہا ؛ منہاج السنہ ابن تیمیہ ٢/٧٧ اور اسکے اسناد کو معروف کہا، العملی المتلقه ٦٥ "حسن"، اور الدیارہ ٢/١٨٧ میں اسکی توثیق کی ؛ مجمع الزواہد ہیثمی ١/١٨٢،
الطرؤق الحکمیہ فی السیاسہ الشریعہ ٨١، کہا کہ "ابن مسعود سے ثابت ہے " ؛ ابن قیم سے الفروسیہ  ٢٩٩ میں اسی طرح ہی مروی ہے ؛ المقاصد الحسنہ الشوکانی ٩٥٩ میں اسے موقوف حسن کہا ؛ ابن ملقن وغیرہ سے اسی طرح مروی ہے-]





﴿وَمَن يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَىٰ وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّىٰ وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ ۖ وَسَاءَتْ مَصِيرًا﴾
جو شخص باوجود راه ہدایت کے واضح ہو جانے کے بھی رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کا خلاف کرے اور تمام مومنوں کی راه چھوڑ کر چلے، ہم اسے ادھر ہی متوجہ کردیں گے جدھر وه خود متوجہ ہو اور دوزخ میں ڈال دیں گے، وه پہنچنے کی بہت ہی بری جگہ ہے-
 [سورہٴ النساء ١١٥]

اس آیت سے سب سے پہلے حجت امام شافی نے لی- انکے بعد لوگوں نے بھی اسے بطور حجت استمعال کیا-
استدلال:
 "رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کا خلاف کرے"،
مطلب یہ کہ رسول پر جو اللہ کی طرف سے نازل ہوا ہے اسکی خلاف ورزی کرے ؛ اور
 " اور تمام مومنوں کی راه"؛
اس کا مطلب ہے کہ وہ عقائد، اعمال اوراقوال  پر جن پر مؤمنین (صحابہ سے لے کر) باالتفاق  متفق ہوں- یہی وجہ ہے کہ
  " اور تمام مومنوں کی راه" " سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ"  کا تذکرہ "واحد" میں  ہوا ہے جو دین کے تمام امور پر لاگو ہوتا ہے- اللہ نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور مؤمنین کی مخالفت کو باعث سزا بنایا ہے-  اللہ نے  اسلئے حرف "و" کو بطور حرف جار استعمال کیا ہے کہ ان لوگوں کو ایک ہی حکم کے اندھر لیا جائے جو رسول اللہ صلی اللہ وسلم اور مؤمنین کی مخالفت  کریں- پس ثابت ہوا کہ مؤمنین کی عقائد،اعمال ؤ اقوال   جن پر مؤمنین بالاتفاق  متفق ہوں انکی مخالفت ایسے ہی ہے  جس طرح رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت ہو-  اجماع  قرآن ؤ سنّت کے بعد شریعت کا ماخذ ہے اور یہی مذہب سلف ؤ صالحین کا ہے جیسا کہ شیخ السلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ  سے مروی ہے- بلکہ امام نسائی نے اپنے سنن  میں اس پر ایک باب  " احکام بمطابق اجماع اہل علم" کے نام سے قائم کیا  اور اسی کے نیچے یہ احادیث روایت کیں-

محمد بن بشار، ابوعامر، سفیان، شیبانی، شعبی، شریح حضرت عمر کو تحریر فرمایا وہ ان سے چند مسائل دریافت فرما رہے تھے تو انہوں نے جواب میں تحریر کیا کہ تم کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ کرو اگر کتاب اللہ میں نہ ہو تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کے مطابق اگر اس میں بھی نہ ہو تو نیک لوگوں کے حکم کے موافق، نہ ہو تو تمہارا دل چاہے تو تم پیچھے ہٹو اور میرا خیال ہے کہ پیچھے کی طرف ہٹ جانا تمہارے واسطے بہتر ہے۔
[سنن نسائی  ٥٣٩٩، صحیح البانی ]

محمد بن العلاء، ابومعاویہ، اعمش، عمارة، ابن عمیر، عبدالرحمن بن یزید سے روایت ہے کہ ایک دن لوگوں نے حضرت عبداللہ بن مسعود سے بہت باتیں کیں۔ انہوں نے فرمایا ایک دور ایسا تھا کہ ہم کسی بات کا حکم نہیں کرتے تھے اور نہ ہی ہم حکم کرنے کے لائق تھے پھر اللہ تعالیٰ نے ہماری تقدیر میں لکھا تھا کہ ہم اس درجہ کو پہنچ گئے کہ جس کو تم دیکھ رہے ہو پس اب آج کے دن سے جس شخص کو تم میں سے فیصلہ کرنے کی ضرورت پیش آجائے تو اس کو چاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی کتاب کے مطابق حکم دے اگر وہ فیصلہ کتاب اللہ میں نہ ملے تو اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم کے مطابق حکم دے اور وہ فیصلہ کتاب اللہ اور پیغمبر کے فیصلوں کے میں بھی نہ پائے تو نیک لوگوں کے فیصلوں کے مطابق فیصلے دے۔( نیک حضرات سے اس جگہ مراد حضرات خلفاء راشدین اور حضرت صحابہ کرام ہیں) اور اگر وہ کام ایسا ہو جو کہ اللہ تعالیٰ کی کتاب میں ملے اور نہ ہی اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احکام میں ملے اور نہ ہی نیک حضرات کے فیصلوں میں تو تم اپنی عقل و فہم سے کام لو اور یہ نہ ہو کہو کہ میں ڈرتا ہوں اور میں اس وجہ سے خوف محسوس کرتا ہوں کہ حلال (بھی) کھلا ہوا یعنی ظاہر ہے اور حرام (بھی) کھلا ہوا ہے اور دونوں (یعنی حرام و حلال) کتاب اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث سے معلوم ہوتے ہیں البتہ ان دونوں کے درمیان بعض ایسے کام ہیں کہ جن میں شبہ ہے تو تم اس کام کو چھوڑ دو جو کام تم کو شک و شبہ میں مبتلا کرے حضرت امام نسائی نے فرمایا کہ یہ حدیث جید ہے یعنی یہ حدیث صحیح ہے۔
[سنن نسائی ٥٣٩٧،٥٣٩٨ صحیح البانی]

[نوٹ: سنن ابو داود ؤ ترمذی میں معاذ رضی اللہ عنہ کی مروی حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ اسی طرح کے الفاظ منقول ہیں لیکن وہ روایت ضعیف ہے ]

  امام بخاری کے استاد اسحاق ابن راہویہ (المتوفی ٢٣٨ ھ ] نے فرمایا:
' اگر تم ایک جاہل سے پوچھو کے " الْجَمَاعَةِ " (اہل علم کی  جماعت جو اجماع کا سبب بنتا ہے) کیا ہے تو وہ کہیں گے ، لوگوں کی اکثریت – حالانکہ انہیں پتہ  نہیں  کہ "الْجَمَاعَةِ " وہ اہل علم ہیں جو رسول اللہ کی سنت کی پیروی کرتے ہیں – پس جو بھی انکے ( حقیقی  علماء) نقش قدم پر  ہیں  پس وہ بھی " الْجَمَاعَةِ ' ہیں-
[ هليه الاولياء أبو  نعیم ٩:٢٣٨ ] 

ابن عمر رضی اللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إِنَّ اللَّهَ لَا يَجْمَعُ أُمَّتِي - أَوْ قَالَ: أُمَّةَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - عَلَى ضَلَالَةٍ، وَيَدُ اللَّهِ مَعَ الجَمَاعَةِ، وَمَنْ شَذَّ شَذَّ إِلَى النَّارِ

بے شک الله  میری امت یا آپ نے کہا : " محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت"   کو نہیں جمع کرے گی"-گمراہی پر ( اور جمع اللہ کی حفاظت میں ہے- اور جو کوئی بھی اس سے انخراف کرے گا و ہ آگ کی طرف جاۓ گا-
 یہ ایک بہت ہی طویل موضوع ہے جس پر ہم یہاں بات نہیں کر سکتے- پس جان لو کہ اجماع اہل علم امت کے لئے حجت ہے- یہی حکم اللہ اور اسکے رسول اللہ والہ وسلم کا ہے اور جو کوئی بھی اس سے انکار کرتا ہے پھر :


شیخ صالح الفوزان حفظ اللہ فرماتے ہیں :
"اجماع کا مکمل انکار کفر اور اسلام سے مرتد ہونے کے مترادف ہے- اگر کوئی شخص اجماع سے مکمل انکار کرے اور کہے کہ میں نہیں مانتا کسی اجماع کو تو یہ شخص کافر ہے- اور اگر کوئی شخص اجماع کے کچھ پہلو سے منکر ہے تو یہ ایک نہ پسندیدہ اور مکروہ فعل ہے- اسکے اعتراض اور انکار کی نوعیت کو دیکھا اور پرکھا جائے گا کہ وہ صحیح ہے یا غلط-
یہ صرف اسلئے کیوں کہ ایسے معاملات ہیں جہاں یہ دعوی کیا جاتا ہے کہ اس پر اجماع ہے لیکن حقیقت یہ ہوتی ہے کہ اس پر اجماع قائم نہیں ہوئی ہوتی- لیکن ایک ایسا شخص جو کہ بالکل اجماع کے حجت ہونے کا ہی منکر ہے تو ایسا شخص کافر ہے- وہ اللہ کا بھی منکر ہے کیونکہ اللہ پر بھی اجماع ہے اور تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہی ہیں- علماء کا عقائد پر اجماع ہے، انکا توحید پر اجماع ہے،، اور انکا سود کے حرام ہونے پر اجماع ہے، اور انکا زنا کے حرام ہونے پر اجماع ہے، اور انکا دین کے وہ امور جن پر ضرورت کے وقت رخصت دی گئی ہے ان پر اجماع ہے- جو شخص مکمل طور پر اجماع کو رڈ کرے وہ کافر ہے، پس اسکی دیکھا اور پرکھا جائے گا-
حوالہ: Source: http://www.alfawzan.af.org.sa/node/2387


ابن حزم رحمہ اللہ نے فرمایا:
" اجماع اس دین کے اصولوں میں سے ایک اصول ہے، جسکی طرف ایک بندہ احکامات حاصل کرنے کے لئے رجوع کرتا ہے، اور جو ایک مسلے پر اجماع ثابت ہونے کے بعد اسے رد کرے وہ شخص کافر ہے-
[مراطب الجماع١/٧]



6.6) علما کرام میں خدا کا خوف (ہزاوں مثالیں میں سے صرف چند ذیل میں بیان کی گئی ہیں) ۔
شیخ السلام ابن قیم الجوزیہ " الفوائد" صفحہ ١٦٢  پر عبدللہ بن مسعود سے نقل کرتے ہیں:
 عبد اللہ ابن مسعود کے کے گروہ میں ایک شخص بولا:
" میں دائیں ہاتھ والے اصحاب میں نہیں ہونا چاہتا بلکہ مقربون میں ہونا چاہتا ہوں (جو اللہ کے قریب لائے جائیں گے)-
پس عبد اللہ ابن مسعود نے فرمایا:
" لیکن یہاں ایک بندہ ہے جسکی خواہش ہے کہ اسے مرنے کے بعد نہ اٹھایا جائے (اللہ کے خوف سے)، (انکا اشارہ اپنے آپ کی طرف تھا).
آپ ایک روز  گھر سے باہر نکلے تو لوگ  آپ کے پیچھے پیچھے چلنے لگے- آپ نے فرمایا:
"کیا تم لوگوں کو کچھ چاہئے؟"
لوگوں نے کہا:
"نہیں لیکن ہم آپ کے ساتھ ساتھ چلنا چاہتے ہیں-"
آپ نے فرمایا:
" واپس چلے جاؤ کیونکہ ایک پیروکار کے لئے یہ ایک نیچ اور ذلت کی بات ہے اور جسکی پیروی کی جائے اس کے لئے فتنے کی بات ہے"
آپ نے یہ بھی فرمایا:
" اگر تم میرے بارے میں وہ جانتے جو میں اپنے بارے میں جانتا ہوں، تو تم میرے سر کے اوپر ریت ڈال دیتے- تم میں سے کوئی شخص بھی دین کے معاملات میں کسی کی  (اندھی) تقلید نہ کرے، اگر وہ (جسکی تقلید کی جاۓ) ایمان رکھتا ہو تو اسکے پیروکار بھی ایمان رکھتے ہونگے اور اگر وہ کفر کرے تو وہ (پیروکار) بھی کفر کریں گے- اگر تم کسی کی تقلید ہی کرنی ہے تو تو پھر انکی کرو جو فوت ہو چکے ہیں مثال بن کر، اور بے شک جو لوگ زندہ ہیں وہ فتنے سے محفوظ نہیں ہیں-
اپنے دل کو تین جگہ پر تلاش کرو:
١ – جب تم قرآن سن رہے ہو-
٢ – اس مجمع میں جہاں اللہ کا ذکر ہو رہا ہو-
٣ – اور جب تم اکیلے ہو-
اگر ان جگہوں پر بھی تمہیں اپنا دل نہیں ملا پھر اللہ سے دعا کرو کہ تمھیں دل عطا کرے کیونکے بے شک تم دل سے محروم ہو-
بے شک لوگ بولنے کے فن میں ماہر ہو گئے ہیں، تو جس کسی کا فعل اسکے قول کے مطابق ہوگا ، پھر اسے اپنے حصے کا اجر ملے گا، اور جس کسی کے قول اور فعل میں تضاد ہوگا، تو وہ اپنے آپ کو ہی ملامت کر رہا ہے-یقیناّ ایک شخص علم کو بھول جاتا ہے ان گناہ کی وجہ سے جو کرتا ہے –علم یہ نہیں کہ تم بہت سے روایات بیان کرو، علم اللہ سے خوف کا نام ہے-

امام اوزاعی فرماتے ہیں-
" قال الأوزاعي: أنبئت انه كان يقال: ويل للمتفقهين بغير العبادة والمستحلين للحرمات بالشبهات"
مجھے خبر دی گئی کہ  کہا جاتا تھا کہ: " عبادت سے خالی علماء پر افسوس کیا جاتا تھا- اور شبہات کے ساتھ حرام چیزوں  کو حلال کرنے والے پر افسوس کیا جاتا تھا-"
[سنن دارمی ١٨٧، یا  بحوالہ ١٩٣ اردو ایڈیشن ]
واللہ، میں اس موضوع کے ساتھ انصاف نہیں کر سکتا کیونکے یہ ایک طویل بحث ہے جسکے اندھر بہت سے فضائل اور موضوعات اور بھی ڈالنے ہیں، لیکن قارئیں کی آسانی کے لئے میں ادھر طویل بحث نہیں کرونگا بلکہ بہت ہی مختصر انداز میں ان موضوعات کا تذکرہ کرونگا- لیکن جان لو کہ علماء دین کے تلوار ہیں، جب وہ گرگئے تو دین گر جاۓ گا کیوں ہم بد بخت تو اپنی روزی روٹی، رہن سہن  اور آرائش میں مصروف ہیں- نہ تو ہمارے پاس وقت  ہے اور نہ ہی وہ آداب کہ ہم اپنی  زندگی اللہ کے دین کی خدمت میں صرف کر  دیں  اور اخروی فلاح حاصل کریں-

7) مذہب  ؤ  مذہبی احکامات کی اپنے  منطق و فہم کے مطابق تشریح کے رد میں سلف صالحین کے فتوے۔

ایسے بہت سے مرفوع اور موقوف روایات ہیں  جو ہمیں اپنے فہم کے مطابق تشریح کرنے سے خبردار  کرتی ہیں- میں پہلے ہی ان مناظروں کا ذکر کر چکا ہوں جو صحابہ اور ان لوگوں کے درمیان پیش آئی تھیں جنہوں نے حدیث کا انکار کر دیا تھا یا قرآن کو اپنے فہم پر سمجھنے کی کوشش کی تھی- اس بابت میں نے سلف کی مثالیں بھی نقل کیں- آپ ان  سب کو اس لنک پر پڑھ سکتے ہیں-

" Refuting Munkarul Hadeeth by proving the authority of Sunnah from Islamic texts"  : http://fahmalhadeeth.blogspot.in/2013/09/refuting-munkarul-hadeeth-by-proving.html
صفحہ # ٤٣ اور اس سے آگے پڑھئے یانڈکس میں اپنے پسند کا موضوع چنئے –

اگر اس بابت آپ کچھ مرفوع اور موقوف روایات پڑھنا چاہتے ہیں تو اسکے لئے اس لنک پر جایئں-


١ -- علامہ ابن العزحنفی (المتوفی.٧٩٢) عقیدہ الطاحاویہ کی تشریح میں لکھتے ہیں کہ ؛

ولا يشاء مبطل أن يتأول النصوص ويحرفها عن مواضعها الا وجد الي ذالك من السبيل.

" ایک گمراہ شخص نصوص کی (من پسند اور غلط) تاویل کرنے کی کوشش کرتا ہے اور اس مقصد کے لئے وہ مختلف اطراف سے اس پر کوشش کرتا ہے اور بلآخر وہ اسکے لئے ایک راستہ تلاش کر لیتا ہے-
[شرح العقیدہ الطاحاویہ ١٨٩ یا ٨٩]

وہ، غلط تاویلات کے نقصانات والے باب کے نیچے لکھتے ہیں-

:
وهذا الذي أفسد الدنيا والدين وهكذا فعلت اليهود
 
والنصاري في نصوص التوراة والإنجيل وحذرنا الله أن نفعل مثلهم وأبيالمبطلون الا سلوك سبيلهم، وكم جني التأويل الفاسد علي الدين وأهله منجناية؟ فهل قتل عثمان رضي الله عنه الا بالتأويل الفاسد! وكذا ما جري فييوم الجمل، وصفين، ومقتل الحسين رضي الله عنه، والحرة! وهل خرجت الخوارج،واعتزلت المعتزلة، ورفضت الروافض، وافترقت الأمة علي ثلاث وسبعين فرقة، الاباتأويل الفاسد
" اس نقطہ نظر (من پسند اور اپنے فہم پر تشریح ؤ تاویل) نے دین اور زندگی میں تباہی مچا دی ہے- یہی حشر یہود ؤ نصاری نے اپنے تورات اور انجیل کے ساتھ کیا- اللہ نے ہمیں ایسا کرنے سے خبردار کیا ہے- لیکن شیطانی لوگوں نے اس خبرداری پر کان نہیں درے اور یہود ؤ نصاری کے نقش قدم پر چلنے لگے- اس (غلط اور اور اپنے فہم پر) تاویلات نے اسلام اور مسلمانوں کو کیا دیا ہے؟ کیا عثمان رضی اللہ عنہ کو نصوص کے غلط تاویلات کی وجہ سے شہید نہیں کر دیا گیا تھا؟ کیا جنگ جمل اور صفین، حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت اور الحراہ کے واقعات اسی (غلط اور اپنے فہم پر تشریح) کی وجہ سے رونماء نہیں ہوئے تھے؟ کیا ان (اپنے فہم پرغلط تشریحات) کی وجہ سے ہی خوارج، معتزلی اور رافضی کفر کے مرتکب نہیں ہوئے؟ اور کیا یہی وہ وجہ نہیں ہے جس کی وجہ سے امت ٧٣ فرقوں میں تقسیم ہوگی؟
[شرح عقیدة  الطحاوي ١٨٩]

وہ آگے لکھتے ہیں:

وأما اذا تأول الكلام بما لا يدل عليه ولا اقترن به ما يدل عليه، فباخباره بأن هذا مراده كذب عليه، وهو تأويل بالراى وتوهم بالهوى.
" اور اگر کوئی کسی قول کی تشریح کرے اور اسکے وہ معنی نکالے جو اس قول کا  (بنیادی) طور پر نہ ہو، اور نہ ہی دوسرے شواہد اسکی (جو تشریح نکالی گئی ہے) طرف اشارہ کرتے ہوں ، تو پھر اس بندے کا دعوی ( جس نے اپنے فہم سے تشریح کی ہے) اس شخص پر جھوٹ باندھنے کے مترادف ہے جس کا وہ قول ہے؛ اور اس بندے کی تشریح  صرف ایک من پسند اور خیالی خواہشات  کے علاوہ کچھ نہیں-
[شرح عقیدة  الطحاوي ١٩٨]





٢ – امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے فرمایا:
سلف کے روایات اور طریقے کو پکڑو اور نئے ایجاد کئے ہوئے طریقے سے بچو کیوں یہ سب بدعات ہیں-
[سؤن المنطق ولکلام للسیوطی  صفحہ ٣٢]

٣ – امام البربہاری (المتوفی-٣٢٩ ھ) نے فرمایا:
" الْجَمَاعَةِ " جن بنیادوں پر واضح طور پر قائم ہے وہ بنیادیں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ ہیں- وہ ہی اہل السنہ والجماعہ ہیں، پس جو کوئی بھی ان سے (دین کے اصولوں اور معاملات میں ) رہنمائی نہ لے  گا وہ بھٹکا ہوا ہے بدعتی ہے، اور ہر بدعت گمراہی ہے اور گمراہ لوگوں کا ٹھکانہ آگ ہے-
[کتاب شرح السنہ للبربہاری (٢) ]

٤ – امام الشاطبی (المتوفی-٧٧٧ ھ]:
" ہر وہ شخص جو متشابہات (غیر واضح) امور کی پیروی کرے گا، یا بنیادی اصولوں کو توڑ مروڑ کر پیش کرے گا، یا ایک آیت کی تشریح اسطرح کرے گا جو سلف صالحین نے نہ کی ہو، یا بہت کمزور اور موضوع احادیث پر عمل کرتا ہو، یا ظاہری احکام کو  اپنے مقصد اور نیت  اور اپنے ہر عمل،عقیدے اور قول کا حجت بناتا ہے اور جسکی مثال بنیادی اصولوں میں نہیں ملتی، تو پس پھر یہ طریقہ بلا شبہ بدعت اور بدعتی کے پیداوار کا سبب بنے گا-
[الاعتصام للشاطتبی ١/٢٣١]



الشعبی نے ایک دفعہ مجھ سے کہا:
" جب یہ لوگ تمھیں اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے کچھ کہیں تو اسے لے لو؛ لیکن اگر وہ اپنی رائے دیں، تو اسے کچرے کے ڈ بے میں پھینک دو-
[السنن الدارمی ١:٧٨]

امام شاطبی الا عتصام میں  ان لوگوں کے بارے میں فرماتے ہیں جو اپنے نفس کی پیروی کرتے ہیں:
" اتخذوا الرجال ذريعة لأهوائهم"
" وہ اپنے نفس کی پیروی کیلئے افراد کو بہانہ بناتے ہیں-

وہ آگے لکھتے ہیں:
" بحثوا عن أقوال العلماء في المسألة المسؤول عنها حتىيجدوا القول الموافق للسائل فأفتوا به ، زاعمين أن الحجة في ذلك لهم قول منقال : اختلاف العلماء رحمة"
" وہ ایک خاص معاملے میں علماء کے اقوال کی ڈھونڈ میں رہتے ہیں جو سائل نے انسے کئے ہوتے ہیں، وہ پھر ایک عالم کا فتویٰ اٹھاتے ہیں جو انکی خواہشات کے مطابق ہو اور پھر اپنی دفاع میں یہ قول لاتے ہیں کہ : علماء کے درمیان رائے کا اختلاف باعث رحمت ہے"




٥ – امام ابن عبد الہادی  (المتوفی-٧٤٥ ھ):
ایک آیت یا سنت کی اسطرح تشریح کرنا  قطعاّ  ممنوع ہے جو سلف کے زمانے میں نہ کیا گیا ہو، نہ ہی انکو اسکا علم ہو اور نہ ہی انہوں نے اسے امت کیلئے اس طریقے سے وضاحت کی ہو-  اگر کوئی ایسا کرنے کی کوشش کرے تو اسکا مطلب یہ ہوگا کہ کہ سلف ان معاملات میں جاہل تھے، انکو اس بات کا علم نہیں تھا یا وہ اس معاملے کو سمجھنے میں ناکام ہو گئے تھےاور جو بندہ جو اسکی ایک نئی طریقے سے تشریح کرتا ہے (جو کے سلف سے بہت بعد میں آیا ہے) وہ حق کو جانتا ہے اور ہدایت یافتہ ہے (اور سلف ؤ صالحین گمراہ تھے)؟
[الصارمل المنکی للعبد الہادی صفحہ ٤٢٧].


٦ – امام ابن القیم (المتوفی-٧٥٦):
کتاب اللہ کی اس طریقے سے تشریح کرنا جو سلف نے نہیں کی ہو اور سلف  اور علماء کے فہم کے خلاف ہو: تو پھر ان دو باتوں میں سے ایک لازم آئی ہو گی-
i )- یا تو تو وہ تشریح (اور اسکا کرنے والا) بذات خود غلط ہے یا
ii )- سلف اور علماء کے فہم اور اقوال غلط ہیں- اور جس کسی میں بھی رائی کے دانے کے برابر بھی عقل ہو وہ کبھی بھی اس بات میں شک نہیں کرے کا کہ جس انسان کا قول سلف کے قول سے تضاد رکھتا ہو، وہی انسان گمراہ ہے اور غلطی پر ہے-
[مختصر السوایقُل مرسلہ للابن القیم ٢/١٢٨]-




الله فرماتا ہے :
يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْٓا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْـهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَــهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَــطَ اَعْمَالُكُمْ وَاَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ
[سورة الْحُجُرٰت آیت ٢].
"اے ایمان والو! اپنی آوازیں نبی کی آواز سے اوپر نہ کرو اور نہ ان سے اونچی آواز سے بات کرو جیسے آپس میں ایک دوسرے سے کرتے ہو، کہیں (ایسا نہ ہو) کہ تمہارے اعمال اکارت جائیں اور تمہیں خبر نہ ہو-"

ابن القیم رحمہ اللہ  اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
" اگر صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کی آواز سے اپنی آواز اونچی کرنا اعمال کے  بربادی ؤ ضیاع کا سبب  تھا ، پھر انکے کے بارے میں کیا خیال ہے جو اپنے راۓ، فہم ؤ عقل، ترجیحات، سیاست اور سمجھ کو ان احکامات پر ترجیح دیتے ہیں- جو رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آئے؟ کیا ان لوگوں کے اعمال کی  بربادی ؤ ضیاع  یقینی نہیں؟؟
[العام الموقعین  ١/١٤]

ابن قیم مزید کہتے ہیں:
"خلاصہ یہ ہے کہ: اہل کتاب   تفرقہ اور اس امت کے ٧٣ فرقوں میں تقسیم ہونا صرف صرف اپنے فہم (قرآن ؤ سنّت ) کو سمجھنے کے ہی وجہ سے ہے-"
[العام الموقعین  : ٤/٣١٧]

٧ -- الحافظ ابن عبدالبر  جامع البیان العلم جلد ٢ صفحہ ٣٦ پر رقم طراز ہیں:
" علماء کے نزدیک علم کی تعریف یہ ہے  کہ جس کسی چیز کے بارے میں ایک شخص بالکل واضح اور یقینی ہو- جو شخص بھی کسی معاملے کے بارے میں واضح اور یقینی ہو تو وہ اس معاملے کے بارے میں صحیح جانکاری رکھتا ہے- اسلئے، جو شخص ایک بات کسی کی اندھی تقلید میں کہتا ہے اور خود  اسے  اس  معاملے کے بارے میں صریح طور پر جانکاری  نہ ہو، تو وہ وہ اس معاملے میں جاہل ہے- علماء کے نزدیک اندھی تقلید اور اتباع میں  فرق ہے- اتباع ایک بندے کی پیروی ایک صریح اور واضح  دلیل کے بنیاد پر کی جاتی ہے ، جبکہ اندھی تقلید  ایک شخص کی بات کو من ؤ عن بغیر دلیل کے اور بغیر سمجھ   کے قبول کرنا ہے-

٨ – عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
بے شک ، اپنے رائے کی (جس میں وہ افراد بھی آ جاتے ہیں جو اپنے فہم اور عقل پر قرآن ؤ سنت کی تشریح کرے) پیروی کرتے ہیں وہ سنت رسول رسول اللہ علیہ وسلم کے دشمن ہیں: وہ حدیث کی حفاظت نہیں کر سکے (نہ انہیں حفظ کیا اور ان پر عمل کیا) اور انکی سمجھ سے قصر رہے، اور جب انسے (دینی امور) کے بارے میں سوال کئے گئے تو (حدیث کا علم نہ ہونے کی وجہ سے) انکے پاس جواب نہیں تھا اور یہ کہنے میں انہیں شرم محسوس ہوتی تھی کہ کہ دیتے کہ "ہم نہیں جانتے" ، تو پس انہوں سے سنت کی مخالفت کی اور اپنے فہم کو ترجیح دی- اور گمراہوں میں ہو گئے-
[سنن الدارقطنی ٤:١٤٦ بروایت امر ابن حریث، المدخل للبیہقی صفحہ ١٩٠، الاحکام ابن حزم ٢٣١:٦، اور  شرح اصول الاعتقاد اللالکہ ١:٢٣٠ یا آرٹیکل ٢٠٠- ایسی رائے جسکی دین میں اجازت ہو، اسکے وضاحت کے لئے دیکھئے ابن حجر کی فتح الباری ١٩٥٩ ایڈیشن  ١٣:١٨٩   اور     العام الموقعین   ابن قیم ١:٨٣، نیز دیکھئے الکوثری  کی فقہ اہل العراق اور  التہانوی کی اعلعل السنن  کی تعارفی باب- ابن ابی زمانن  کی اصول السنہ آرٹیکل ٨]-



عمر ابن عبد اللہ الاشج  نے کہا کہ عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
" بہت جلد لوگوں کا ایک ایسا گروہ آئے گا، جو تمہارے ساتھ قرآن کی متشابہات  کے بارے میں بحث کرینگے- پس انکے  ساتھ سنت  رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے زریعے بحث کرو- کیونکہ بے شک  اصحاب السنن (جو لوگ سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا علم رکھتے ہیں) ہی قرآن کے بارے میں سب سے زیادہ علم رکھنے والے ہیں-
[اسے الدارمی نے اپنی سنن  میں روایت کیا، الخطیب نے تاریخ بغداد( ١٤:٢٨٦)میں ،    اللالکہ نے شرح اصول الاععتقاد اہل السنہ (١:٢٣) اور خطیب البغدادی  نے  فقیہ ولمتفقیہ  ١/٥٥٩-٥٦٠ میں]

٩ – ابن حزم نے کہا:
" ایک شخص کی ایمان کی کمزوری کی نشانی ہی یہی ہے  کہ وہ ایک ایسے رائے (تشریح) کی تلاش میں رہتا ہے جو اسکے خواہشات کے مطابق ہو"-
 [الاحکام ٥/٦٤]

١٠ – امام ابو امر عبدر الرحمان ابن امر الاوزاعی  (المتوفی-١٧٩ ھ)نے فرمایا:
"ان لوگوں کے اثار کو پکڑو جو تم سے پہلے گزرے (سلف)، اگر لوگ تمھیں رد کرے تو تب بھی- اور لوگوں کی رائے سے بچو اگرچے وہ اسے بہت خوبصورتی کے ساتھ پیش کرینگے – تو پس یہ معاملا  ابھی نیا ہے اور آپ لوگ اس حوالے سے صراط مستقیم پر ہو-
[صحیح:  المدخل للبیہقی # ٢٣٣، شرف اصحاب الحدیث   للخطیب ا لبغدادی # ٦،  اور الجامع ابن عبدالبر ]



الاوزاعی  رحمہ اللہ نے فرمایا:
ایک اہل الرائے  (جو اپنے رائے کو فوقیت دیتا ہے) علی رضی اللہ عنہ سے بحث کر رہا تھا تو ابن عباس رضی اللہ عنہ نے علی رضی اللہ عنہ سے کہا:
" او  ابوالحسین!  یہ لوگ قرآن کی تشریح اپنے فہم اور سوچ پر کر رہیں ہیں ، پس تم کچھ اور کہو گے اور آگے سے وہ کچھ اور کہیں گے- بلکہ آپ انکو  جواب سنت (رسول صلی اللہ علیہ وسلم ) سے دو، کیونکے بے شک یہ لوگ سنت کے بارے میں جھوٹ نہیں بول سکتے-"
[الفقیہ ولمتفقیہ  الخطیب البغدادی  ٥٦٠/١]


١١ – علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
" اگر دین کا انحصار رائے پر ہوتا  تو موزوں پر مسح نیچے کی طرف سے کیا جاتا اپر کی طرف نہیں لیکن میں نے  رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم  کو دیکھا ہے کے آپ موزوں کے اپر کی طرف سے مسح کرتے تھے-
[سنن ابو داود، # ١٦٢،١٦٤، اور حدیث ١٦٣ کا آخری حصہ- کچھ محدثین نے اسے ضعیف کہا لیکن شیخ البانی نے اسے صحیح کہا ہے- تا ہم اسکا متن صحیح ہے-]





١٢ – امام ذہبی  رحمہ الله  اپنے کتاب  العلو للعلي الغفار  میں فرماتے ہیں:
" او عبد اللہ، اگر تم انصاف کرنا چاہتے ہو تو قرآن ؤ سنت سے آگے مت بڑھو اور اسکے بعد بعد صحابہ اور تابعین کے اقوال ،بمع  ائمہ تفاسیر جو انہوں نے آیات کی  تفسیر  میں لکھی ہیں اور جو کچھ بھی سلف ؤ صالحین سے ثابت ہو،   اس میں  تلاش کرو – تو پس یا  تو تم اگر بولو تو علم کے ساتھ یا خاموش  رہو نرمی کے ساتھ-"
[الوسطیہ اہل السنہ بین الفراق صفحہ ١٠٢-١٠٣]

١٣ – ابن رشد (٥٢٠-٥٩٥ ھ ) اپنے کتاب  " مناہج الادلہ فی عقائد الملہ " صفحہ ١٥٠ پر فرماتے ہیں:
"  شریعت کے حوالے سے یہی حال بدعتی گروہوں کا تھا- ان میں سے ہر ایک گروہ  نے شریعت کی غلط تشریح کی اور ہر ایک کا دعوی تھا کہ اس کے گروہ کی تشریح اور سمجھ بلکل اسی طرح ہی ہے جسطرح  قانون ساز (خالق) نے نازل کیا تھا- اسی حرکت نے شریعت کے ٹکرے ٹکرے کر دئے اور اسکی حقیقی معنی سے دور ہو گئے- قانون ساز کو پتہ تھا کہ اس طرح ہوگا- پس اللہ نے (اپنے رسول صلی اللہ وسلم) کے ذریعے سے فرمایا:
" میری امت ٧٣ فرقوں میں تقسیم ہوگی، یہ سب دوزخ میں جائیںگے ماسوائے ایک کے"- اس ایک گروہ سے آپ کا مراد وہ لوگ تھے جو شریعت کے آیتوں کی پیروی کرتے ہیں اور ان میں اوہام کا شکار نہیں ہوتے-
اگر ہم  امت کے اب تک کے تقسیم اور تفرقے کو دیکھیں تو صاف معلوم ہوتا ہے اسکی وجہ (فہم اور تشریح) کی غلط فہمی  اور اوہام ہی ہیں- اور اس مرض میں سب سے پہلے خوارج، پھر معتزلہ، پھر اشعری،اور صوفیہ مبتلاء ہوئے- پھر ابو حامد آ گئے جنہوں نے وادی کے دیہاتوں پر مٹی کا تودہ گرا دیا-



7.1 ) کچھ ایسی مثالیں جب علماء نے اپنے علماء سے فتوے کے لئے رجوع کیا اور نص کے خلاف اپنے منطق کو استمعال کرنے کا رد کیا-
ایوب السختیانی (الموتوفی-١٣١ ھ) نے فرمایا:
أجسر الناس على الفتيا أقلهم علما باختلاف العلماء، وأمسك الناس عن الفتيا أعلمهم باختلاف العلماء
" ہمیشہ، فتوے دینے میں تیزی وہی شخص ہی کرے گا جو اختلاف بین العلماء سے نا واقف ہو، اور فتوے دینے میں سب سے زیادہ احتیاط وہی کرے گا جو اختلاف بین العلماء سے با خبر ہو-
[جامع البیان العلم ؤ فضیلہ # ١٥٢٥]

روایت ہے کہ ایک روز ابن عباس رضی اللہ عنہ نے معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ طواف کیا اور دیکھا کہ معاویہ رضی الله عنہ کعبہ کے تمام کونوں کو  چھو رہے ہیں- ابن عباس رضی اللہ عنہ نے انہیں  منع فرمایا اور کہا:
 " تم ان دو کونوں کو کیوں چھوتے ہو؟ (یعنی رکن عراقی اور رکن شامی)، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں نہیں چھوتے تھے- معاویہ رضی اللہ عنہ نے  (اپنے فہم سے) جواب دیا:
" اس گھر (کعبہ) کے کسی حصے کو نہیں چھوڑنا  چاہئے-"  تو ابن عباس رضی اللہ عنہ نے یہ آیت تلاوت کی:
لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِيْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَنْ كَانَ يَرْجُوا اللّٰهَ وَالْيَوْمَ الْاٰخِرَ وَذَكَرَ اللّٰهَ كَثِيْرًا
یقیناً تمہارے لئے رسول اللہ میں عمدہ نمونہ (موجود) ہے - [سورہٴ الاحزاب آیت ٢١]-
یہ سن کر معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: " تم بلکل ٹھیک کہ رہے ہو"-
[الاوسط للطبرانی ٣/١٧ اور مند احمد میں بھی جیسا کہ شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ نے اپنے بیان  "طواف میں غلطیاں" کے  ٹیپ/فتوے میں بیان کیا-]
شیخ عثیمین کی تقوی کی مثال:
یہ شیخ کے تقوے کی ایک عمدہ مثال ہے- شیخ نے ایک دن گلوکوز انجکشن (cose Injectio glu) کے حوالے سے ایک فتویٰ دیا تو مجمعے میں موجود ایک شخص نے طبی بنیادوں پر شیخ کے فتوے کی مخالفت کی- اس پر شیخ نے کہا کہ میں اپنا فتویٰ واپس لیتا ہوں تب تک جب تک میں اپنے شیخ علامہ عبدالعزیز ابن باز رحمہ اللہ سے نہ پوچھو- پھر اگلے روز وہ آئے اور لوگوں کو اپنے شیخ کا فتویٰ سنایا-
[الجامع لحیات العلّامہ محمد ابن صالح العثیمین، صفحہ ٢٣؛ gift of knowledge wordpress ]

8) خلاصہ/ اختتام-
فہم ؤ منطق ؤ رائے کو استاد کے علم کے مقابلے میں دور پھینکا جاۓ گا اور یہاں پر استاد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں-
اہم امور میں اور خاص طور پر وہ امور جو دین سے ماخوذ ہیں اور امت کی بھلائی کا سبب ہیں ، ان میں علماء سے رہنمائی لینی چاہئے- اگر ہم سلف صالحین کو پڑھیں تو پتہ چلتا ہے کہ وہ اپنے وقت کے اکابر علماء جو اس وقت زندہ تھے، کی طرف رجوع کرتے تھے، خاص طور پر تبدی (کسی کو بدعتی قرار دینا) اور تکفیر (کسی کو کافر کہنے) کے امور میں –

نوٹ : اس بات کا یہ مطلب بالکل نہیں کہ  ایک طالب علم ایک مسلے پر تحقیق نہیں کر سکتا یا حکم نہیں لگا سکتا -  ہمارا مقصد یہ ہے کہ ایک طالب علم کو ایسے امور پر جو موجودہ  حالات میں رونماء ہوئے ہوں  اور خاص طور پر وہ جو غیر واضح ہوں، ان پر اپنے فہم سے حکم نہیں لگانا چاہئے- جہاں تک ایسے امور کا تعلق ہے جن میں کچھ ابہام نہیں ہے اور واضح ہیں تو ان امور پر وہ نصوص سے دلیل بمع فہم العلماء حکم دے سکتا ہے-



یحییٰ بن یعمر البصری اور ہمید بن عبد الرحمن الحمیری البصری کی مثال دیکھئے-
جب ان کے زمانے میں قادریہ نموردار ہوئے اور اہل السنہ کے بنیادی عقائد سے کھلا اختلاف کرنا شروع کر دیا، تو پھر اس بات کی ضرورت تھی کہ انکو  بدعتی قرار دیا جائے یا اہل السنہ ؤ الجماعه سے خارج قرار دیا جائے- تا ہم انہوں نے انکے خلاف حکم لگانے میں جلدی نہیں کی بلکہ وہ اس و   قت کے اہل علم کے پاس گئے جو ان امور میں علم اور مہارت رکھتے تھے- اور وہ عبد اللہ بن عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ تھے- انھوں نے ابن عمر رضی اللہ عنہ سے اس گروہ (قادریہ) کے حالات ؤ عقائد بیان کئے – عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ نے ان پر (قادریہ) گمراہی کا حکم لگایا (انکی تکفیر نہیں کی)-
یحییٰ بن یعمر نے کہا:
" بصرہ میں  پہلا شخص جو "القدر" کے عقیدے سے منحرف ہوا وہ "معبد الجھنی" تھا-    ہمید بن عبد الرحمن الحمیری اور میں حج ؤ عمرہ کی سعادت حاصل کرنے کے لئے سفر پر روانہ ہوئے اور ہم نے ایک دوسرے سے کہا:
" کاش اللہ کے رسول صلی اللہ وسلم کے کسی ایک صحابی سے ملاقات ہو جاۓ اور ہم ان سے ان لوگوں (قادریہ) کے کلام کے بارے میں پوچھے جو یہ القدر کے بارے میں کر رہیں ہیں- پس ہماری خواہش اللہ نے پوری کی اور عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ مسجد میں داخل ہوئے- پس میں اور میرا دوست انکے پاس آ کر انکے دائیں اور بائیں جانب بیٹھ گئے- مجھے ایسا لگا کہ میرا دوست چاہتا تھا  کہ میں بولوں، تو میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہ سے عرض کیا:
" ابو عبدر الرحمان (ابن عمر)، ہمارے علاقے میں کچھ لوگ نمودار ہوئے ہیں، وہ قرآن کی تلاوت کرتے ہیں اور علم کی پیروی کرتے ہیں، اور وہ دعوی کرتے ہیں کہ "القدر"(تقدیر) نامی کوئی چیز نہیں اور یہ کہ یہ مسترد ہو چکا ہے-"
ابن عمر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا:
" اگر تم ان لوگوں سے ملو، تو انہیں بتا دینا کہ میں ان سے بھری ہوں اور وہ مجھ سے بھری ہیں، اس ذات کی قسم جس پر عبد الله ابن عمر قسم کھاتا ہے (اللہ کی قسم)، اگر ان میں سے کوئی احد کے  پہاڑ جتنا سونا بھی خیرات کیوں نہ کر دیں اللہ انکی یہ خیرات قبول نہیں فرمائے گا تب تک جب تک وہ القدر پر ایمان نہ لے آئیں، پھر انہوں نے کہا کہ میرے والد نے اسے (حدیث) کو مجھے روایت کیا-
[صحیح مسلم ٩٣]
اور زبید ابن حارث الیمنی کی مثال لے لیجئے-
 جب ان کے وقت میں "مرجیہ" نمودار ہوئے اور انھوں نے دیکھا کہ وہ اہل سنت کے بنیادی عقائد  سے اختلاف  کرتے تھے، تو پھر اس بات کی ضرورت تھی کہ انکو  بدعتی  قرار دیا جاۓ یا اہل ؤ  السنہ الجماعه سے خارج قرار دیا جائے- تا ہم انہوں نے انکے خلاف حکم لگانے میں جلدی نہیں کی بلکہ وہ اس قوت کے اہل علم کے پاس گئے جو ان امور میں علم اور مہارت رکھتے تھے اور جنہوں نے دین کا علم اکابر صحابہ سے لیا- اور وہ تھے ابو وائل شقیق بن سلامہ الاسدی الکوفی رحمہ اللہ-

پس زبیر ابن حارث الیمنی انکے پاس گئے اور ان لوگوں (مرجیہ) کے حالات ؤ عقائد بیان کئے- ابو وائل شقیق بن سلامہ نے رسول اللہ صلی اللہ وسلم کے حدیث کی بنیاد پر ان پر فتویٰ دیا، اور مرجیہ کے گمراہ عقائد جسمیں انہوں نے اہل السنہ سے انحراف کیا، کی نشاندہی کی-
زبیر ابن حارث الیمنی کہتے ہیں کہ جب مرجیہ نمودار ہوئے تو میں ابو وائل شقیق بن سلامہ کے پاس گیا اور اور انکے حالت انسے بیان کئے، انہوں نے فرمایا:
عبداللہ نے مجھ سے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی علیہ وسلم نے فرمایا:
سِبَابُ الْمُسْلِمِ فُسُوقٌ، وَقِتَالُهُ كُفْرٌ‏
" مسلمان کو گالی فسق ہے اور اس سے لڑنا کفر"-
[صحیح بخاری ٤٨، صحیح مسلم ٢١٨]
یہ اقتباس " الاوسایہ الثانیہ التایبینہ الساالسلفیہ" سے لیا گیا ہے-



9) علماء کرام کا مزاق اڑانا اور انکی توہین کرنا ۔
عن كعب بن مالك رضي الله عنه قال : قالرسول الله صلى الله عليه وسلم : “من طلب العلم ليجاري به العلماء أو ليماريبه السفهاء أو يصرف به وجوه الناس إليه أدخله الله النار”  رواه الترمذي (مشكوة – مرقاة ٢٧٨/١)

 کعب بن مالک سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"  کوئی بھی شخص اگر اس واسطے علم حاصل کرے کہ علماء کی ہمسری کرے، یا بیوقوفوں سے مناظرے کرے یا لوگوں کی توجہ حاصل کرنے  کے لئے، تو (ایسے شخص) کو اللہ آگ میں ڈالے گا-"
[ترمذی نے اسے روایت کیا- الفاظ مشکوة  کے ہیں]

کعب بن مالک سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
" جو شخص بھی  شخص اگر اس واسطے علم حاصل کرے کہ علماء کی ہمسری کرے، یا بیوقوفوں سے مناظرے کرے یا لوگوں کی توجہ حاصل کے لئے، تو (ایسے شخص) کو اللہ آگ میں ڈالے گا-"
[شعب الایمان بیہقی ١٦٣٥، صحیح السیوطی]



 عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:   
" اللہ کی نظر میں سب سے ذلیل بندہ وہ ہے جسکی کوشش ہوتی ہے کہ لوگوں کے ساتھ (بلا وجہ) تنازعات میں پڑے- (صرف اور صرف اپنے علم اور بحث ؤ دلائل کے فن کے دکھاوے کے واسطے)-
[صحیح مسلم کتاب ٣٣،حدیث ٦٤٤٧]

ابو عمامہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"کوئی لوگ ہدایت پانے کے بعد گمراہ نہیں ہوتے مگر وہ جو (بلا وجہ) بحث میں پڑتے ہیں"- پھر آپ نے یہ آیت تلاوت کی،
"  مَا ضَرَبُوْهُ لَكَ اِلَّا جَدَلًا ۭ بَلْ هُمْ قَوْمٌ خَصِمُوْنَ"-
" تجھ سے ان کا یہ کہنا محض جھگڑے کی غرض سے ہے، بلکہ یہ لوگ ہیں جھگڑالو"
[سورہٴ الزخرف:٥٨]
[سنن ترمذی کتاب التفسیر، # ٣٢٥٣،صحیح]

شیخ سلیمان الرھیلی کی طرف متوجہ ہوتے ہیں جو انھوں نے اس بابت کہا:
" گمراہ ہونے کے وجوہات میں سے ایک علماء کی توہین کرنا ہے - یہ ایک ایسا معاملہ ہے جو ایک انسان کو  رلا دیتا ہے- او میرے بھائیوں! یہ عمل بذات خود گمراہ کن ہے اور یہی عمل گمراہی کا سبب بھی بنتی ہے- گمراہی اور اسکے وجوہات میں سے ایک یہ بھی ہے  کہ نوجوان نسل سنت رسول صلی اللہ وسلم کے علماء کی بے عزتی کرتی ہے؛ اور یہ نوجوان نسل ان علماء کی تضحیک کرتی ہے جنہوں   نے اپنی ساری زندگی قرآن ؤ سنت سیکھنے اور انہی بنیادوں سے علم لوگوں کے سکھانے میں لگا دی؛ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنی پوری زندگی اللہ کی اطاعت میں گزار دی- انکی امانت داری اور سچائی کی گواہی تقوی دار لوگوں کے زبان زد عام ہے اور انہی کے ذمہ علم کی تدریس اور فتوے دینا ہے- لیکن ان سب کے باوجود  یہ نوجوان نسل انہی علماء کو حقارت کی نظر سے دیکھتی ہے اور انکو گالیاں دیتی ہیں- انکا یہی عمل انکو انسانی شیطانوں کے لئے ایک آسان شکار بنا دیتی ہے اور جسکا نتیجہ گالی گلوچ، شکوک ؤ شبہات اور اپنے رائے ؤ خواہشات کی پیروی کی شکل میں ابھر آتا ہے- اے  اللہ کے بندو ! آپکو افسوس ہو گا، جب آپ ایک ایسے نوجوان کو دیکھتے ہو اللہ کی فرمانبرداری کے حوالے سے بالکل غفلت میں  ہے؛ وہ فرائض کو ترک کرتا ہے اور وہ ممنوع اعمال کا مرتکب ہوتا ہے؛ لیکن پھر بھی اسکے منہ سے علماء کے لئے گالی نکلتی ہے- وہ کہتا ہے:
" ہمیں ان علماء کی ضرورت نہیں- انکے پاس فلاں فلاں ہے یہ وہ فلاں فلاں کام کرتے ہیں- ہم ان علماء کو سننا چاہتے ہیں جو ہمیں یہ نہ کہیں کہ "یہ چیز حرام ہے"، وہ ہمیں یہ نہ کہیں کہ "یہ چیز فرائض میں سے ہے"،- وہ کہتے ہیں جن اکابر علماء کی آپ بات کر رہے ہو  ہمیں انسے کوئی سروکار نہیں اور نہ ہی انکو سننا چاہتے ہیں- انکے بیانات میں تو صرف نصیحت،غصہ اور ڈرانا ہی ہوتا ہے جو کہ ہماری نسل کو ذمہ دار بنانے کے لئے کافی نہیں-"


 جب  آپ ایک ایسےنوجوان کو دیکھتے ہو،جس میں آپکو اچھائی نظر آئیگی، اسمیں آپکو سنت کی جھلک نظر آئیگی، اسکے عمل میں نیکی نظر آئیگی، لیکن آپکا دل خفا ہوگا اور روئے گا ان سب کے باوجود بھی آپ اس نوجوان کو ان مجمعوں  میں دیکھو گے جہاں علماء کی بے عزتی ہوتی ہے انکو گالیاں دی جاتی ہیں، انکو خقیر سمجھا جاتا اور انکا مذاق اڑایا جاتا ہے- میرے بھائیوں! یہ گمراہ عمل گمراہی کے اسباب میں سے ایک سبب ہے- اسکا حل یہ ہے کہ نوجوان نسل میں علماء کی عزت، انکے حقوق، انکے مرتبے، انکے علم وغیرہ کی اہمیت اجاگر کی جائے اور ان مجمعوں سے  انکو درس ؤ تدریس اور آگاہی کے زریعے  سے بچا جائے جہاں علماء کی تضحیک ہوتی ہے-

شیخ صالح الفوزان نے فرمایا:
" مسلمانوں پر اپنے علماء کا احترام فرض ہے، کیونکہ  یہ انبیاء کے وارث ہیں- انکی تضحیک  انکی منصب  کی تضحیک ہے اور انکے عہدے کی تضحیک اس وراثت اور علم کی تضحیک ہے جو رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے انہیں ملا ہے- انکے عہدے، منصب، علم اور ان پر اسلام اور  امت کی بہتری کی ذمداری کی وجہ سے مسلمانوں پر انکا احترام فرض ہے- اگر علماء کو قابل اعتبار نہیں  سمجھا جائے گا تو پھر کس کو ؟ اگر علماء پر سے لوگ اپنا یقین اٹھا لیں تو پھر  امت اپنے مسائل اور بنیادی اصولوں سے آگاہی کے لئے کن کی طرف رجوع کرینگے؟ امت تباہ ہو جائے گی اور ہر طرف انتشار پھیل جایگا-

شیخ، اللہ انکی حفاظت کرے، نے بالکل سچ بولا- اور جو شیخ نے بولا ہم دیکھتے ہیں کہ وہ نمودار ہو چکا ہے (یعنی تباہی ؤ انتشار)- ہم دیکھتے ہیں کہ کسطرح ہم میں بہتوں نے اکابر علماء کے علم ؤ فہم کو چھوڑ دیا اور ان لوگوں کی رائے کے پیچھے دوڑتے چلے جا رہے ہیں جن کے پاس علم نہیں ہے مگر تھوڑا سا- ہم اللہ سے دعاکرتے ہیں کہ ہمیں نیکی کرنے کی توفیق عطا فرمائیں، اور حق کو قائم اور ان امور کو کرنے میں، جو ہم پر لازم ہیں، ہماری مدد کریں،










10)  علماء سے برتاؤ  کے حوالے سے کچھ باتیں  ۔
شیخ البانی رحمہ اللہ :
"آج کی  نوجوان نسل کے ساتھ مسلہ یہ ہے کہ جونہی وہ کچھ سیکھ لیتے ہیں وہ سمجھ بھیٹتے کہ وہ عالم بن گئے-
[الحدا والنور ٨٦١]

شیخ البانی مزید فرماتے ہیں:
" میرے مشاہدے میں آیا ہے کہ کچھ لوگ جو اپنے آپ کو ہمارے دعوت کے ساتھ منسلک کرتے ہیں، وہ کچھ وقت کے بعد اپنے آپ سے بہت متاثر ہو جاتے ہیں اور دھوکے میں پڑ جاتے ہیں- چند ایک کتابیں پڑھنے کے بعد تم دیکھو گے  کہ وہ اپنے آپ کو  (دین کے معاملے میں) میں خود مختار سمجھنے لگتے ہیں- اگر کوئی شخص ان کو نشاندھی کرائے  کہ شیخ کی رائے اس مسلے میں یہ ہے تو آگے سے کہہ دیتے ہیں کہ "شیخ کی اپنی رائے ہے اور میری اپنی"-
[الحدا النور ٢٥٦]

ابن القیم:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جہالت ایک بیماری ہے اور اسکا علاج علماء سے پوچھنا ہے –
[الد 'داء، صفحہ ٨،  afatwa.com]

عبد اللہ ابن مبارک رحمہ اللہ نے فرمایا:
" یہ بات درست ہے کہ ایک عقلمند شخص تین طرح کے لوگوں  کی بے قدری نہ کرے:
علماء کی، حکمرانوں کی اور اپنے مسلمان بھائی بھائی کی- جو شخص بھی  علماء کی بے قدری کرے گا وہ  اخروی زندگی سے محروم رہے گا، جو شخص بھی حکرانوں کی بے قدری کرے گا وہ دنیوی زندگی سے محروم رہے گا اور جو شخص بھی اپنے بھائی کی بے قدری کرے گا وہ اچھے اخلاق ؤ کردار سے محروم رہے گا-
[الذہبی، سير أعلام النبلاء ١٧:٢٥١]

عون بن عبد اللہ نے فرمایا:
" میں  نے امیر المومنین عمر بن عبد العزیز  سے عرض کیا:
" کہا جاتا ہے کہ: اگر تم میں ایک عالم بننے کی صلاحیت ہو تو  جہاں تک ممکن ایک عالم بننے کی کوشش کرو، اور اگر تم نہیں بن سکتے تو پھر ایک طالب علم بنو، اور اگر طالب علم بننے کی بھی صلاحیت نہیں ہے تو پھر ان سے (علماء ؤ طالب علم) سے محبت کرو، اگر تم ان سے محبت کے قابل بھی نہیں ہو تو پھر (کم از کم) ان سے نفرت مت کرو-"
عمر بن عبد العزیز نے جواب دیا:
" سبحان اللہ نے  اس (آخری ) بندے کو بھی مہلت دی ہے-"
[ابو ہیثمہ فصوی، معارفت التاریخ ٣/٣٩٨،٣٩٩،   ابن عبدالبر جامع البیان  العلم ، ١.١٤٢-١٤٣]


الشعبی  نے کہا:
" زید بن ثابت رضی اللہ عنہم  ایک دفعہ   اپنے ( گھوڑے یا اونٹ) پر چڑھے تو ابن عباس رضی اللہ عنہ  نے لگام کو پکڑ لیا ( تا کہ سواری کو روانہ کر سکے)، اس پر زید بن ثابت نے (ابن عباس  کے احترام میں) کہا:
 " او! اللہ کے رسول صلی اللہ وسلم  کے بھائی ایسا مت کرو"-
ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا:
" ہمیں اپنے علماء کے ساتھ اسی طرح برتاؤ کرنے کو کہا گیا ہے (کہ انکی عزت اور احترام کی جائے) "-
زین بن ثابت نے کہا:
" مجھے اپنا ہاتھ دکھاؤ"- ابن عباس نے اپنا  ہاتھ آگے کر دیا اور زید بن ثابت نے نے اسے چوما اینڈ کہا:
" اور ہمیں اہل بیت کے ساتھ یہی برتاؤ کرنے کا کہا گیا ہے"-
[ابو بکر ال دینوری، المجلصہ  ؤ جواہر العلم  ٤:١٤٦]
  
10.1) اپنے شیخ (جس سے آپ علم حاصل کرتے ہو) سے حسن سلوک ۔
علم صرف کتابوں سے حاصل نہیں کیا جا سکتا؛ علم کے حصول کے لئے ایک شیخ کا ہونا لازم ہے، جس پر آپکا یقین ہو  ،جو کہ آپ کے لئے علم کے بند دروازے کھولے  اور جب آپ غلطی کرو تو وہ آپ کی رہنمائی کرے- آپ پر لازم ہے کہ آپ انسے حن سلوک کے ساتھ پیش آؤ، کیونکے یہی فلاح  اور علم میں ثابت قدمی کا راستہ ہے – آپ اپنے شیخ کو  عزت دو، اسکی قدر کرو اور اس سے نرمی کا برتاؤ کرو- جب آپ اپنے شیخ کی صحبت میں ہو   اور جب  انسے ہمکلام  ہو تو اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کرو- مناسب طریقے سے سوالات پوچھواور ادب کے ساتھ انکو سنو- انکے ساتھ بحث کی کوشش مت کرو، نہ ہی گفتگو میں انسے آگے بڑھو اور نہ ہی انکی موجودگی میں حد سے زیادہ باتیں کرو- کثرت سوالات سے پرہیز کرو اور انکو ا س بات پر مجبور مت کرو کہ وہ تمہارے ہر سوال کا جواب دے خاص طور پر جب آپ لوگوں کے سامنے ہوں کیونکہ   لوگ سمجھیں گے کہ آپ  دکھاوا کر رہے ہو اور آپکا شیخ بھی آپ کے سوالات  بیزار ہو جائے گا- انکو انکے نام یا عرفیت سے مت بلاؤ، بلکہ کہو: "او شیخ"، یا "او میرے شیخ" یا " او ہمارے شیخ" –

اگر آپکے خیال میں شیخ نے غلطی کی ہے ، تو اسکا مطلب یہ ہر گز نہیں کے آپکی نگاہ میں شیخ کی  قدر ؤ عزت کم ہو جاۓ کیونکے یہ حرکت آپکو انکے علم سے محروم کر دیگی- کون ہے جو غلطی سے پاک ہے؟ کون ہے جو غلطی نہیں کرتا؟
[دیکھئے: ہلیت طالب العلم  شیخ بکر ابو زید ]

تمام اچھائی اللہ کی طرف سے ہے اور تمام غلطیاں میری طرف سے- اللہ ہم سب پر رحم کرے-
تالیف: The Final Revelation
http://the-finalrevelation.blogspot.in








No comments:

To contact us, Please do so from the "Contact us" tab on the top of this page